”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“

68

ہمارے معاشرے کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں غریب طبقہ ایک واحد طبقہ ہے جو ہر طرف سے پس رہا ہے۔ اگر بات کی جائے ایک اہم اور ضروری فریضہ "نکاح” کی، جو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کو ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ سنت رسولؐ ہے۔ اور اس کا ایک مکمل طریقہ ہمیں اسوہ رسولؐ میں ملتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس مقدس اور آسان فریضے کو بزات خود اس قدر مشکل اور کٹھن بنا دیا ہے اور اپنے معیارات زندگی کو اتنا بلند کر لیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے تو ہی وہ اہل ہے کہ وہ نکاح کر سکے۔ اور معاشرہ اس قدر دلدل میں پھنس چکا ہے کہ قرآن اور سنت کے بتائے گئے اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔ آج کل یہ رواج بہت ہی عام بن چکا ہے کہ اگر کوئی لڑکی والوں کے گھر ان کی بیٹی کا رشتہ دیکھنے جاتا ہے تو پورے کا پورا خاندان اس طرح جاتا ہے کہ جیسے پہلے پہل ہی لڑکی کو بیاہ کر ساتھ لانا ہو۔ یہ ایک بہت ہی غیر مناسب حرکت ہے اور میرا خیال ہے کہ ایک عام آدمی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ مہنگائی کے ہاتھوں پہلے سے ہی پریشان آدمی ان کے شایان شان مہمان نوازی کرتا ہے۔اور پھر لڑکے والے طرح طرح کے کھانوں سے لطف اندوز ہو کر مدعے کی بات پر آ ہی جاتے ہیں۔ پھر لڑکی کو کسی قربانی کی گائے، بھینس یا بکری کی طرح سجا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے۔ لڑکی پر ایک نگاہ ڈالنا اور پھر ٹکٹکی باندھ کر تکتے چلے جانا ہر شخص اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔اور پھر لڑکے کی ماں خالہ، پھوپھی, چچی اور تائی سے لے کر نانی تک لڑکی میں نقص نکالنے سے باز رہنا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ لڑکی کا رنگ کالا ہے، تو کوئی کہتا ہے اس کی ناک موٹی ہے، کوئی کہتا ہے کہ آنکھیں چھوٹی ہیں تو کوئی کہتا ہے قد چھوٹا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے گورا رنگ، لمبے بال، جھیل آنکھیں اور دراز قد کو خوبصورتی کا پیمانہ تصور کر لیا ہے۔اور پھر سب سے اہم اور بیوقوفانہ بات ان کو لڑکی پڑھی لکھی بھی چاہیے، نوکری کرنے والی بھی اور لڑکی کی عمر 18 سال بھی ہو۔

جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ سے نکاح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ان مطالبات پر نظر ثانی کی جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے 18 سال کی لڑکی سولہ جماعتیں پاس بھی ہو، نوکری بھی کرتی ہو پھر ہی وہ شادی کا ویزا لینے کے لیے اہل ہے۔ چلیں اگر ان سب امتحانات کو وہ پاس بھی کر لیں تو چند اور مطالبات بھی پیش کر دیے جاتے ہیں کہ ایک غریب آدمی سن کر ہی اپنا دل پکڑ لیتا ہے۔ بالکل بھکاریوں کی طرح جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس میں گاڑی، فرنیچر اور ہر چھوٹی بڑی چیز شامل ہے۔ جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جہیز کو لعنت قرار دیا ہے۔

پھر شادی میں 500 لوگوں کو لا کر ایک غریب آدمی پر جو گدھے کی طرح جو بوجھ ڈالا جاتا ہے اس کا وزن بس وہی برداشت کر سکتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اور یہی لوگ کھانے میں طرح طرح کے نقص نکال کر ساری محنت برباد کر دیتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کا حال ہے جہاں اچھے لوگوں کو پرکھنے کا معیارکسی کی بیٹی کی شادی کا اچھا کھانا ہو۔ ایک باپ ساری زندگی اپنی اولاد کو پالنے میں، اس کو اچھی تعلیم دلوانے اور اس کی تمام ضروریات پوری کرنے میں صرف کر دیتا ہے، مگر بیٹیوں کے باپ کو یہ معاشرہ پھر بھی جینے نہیں دیتا۔ ایک باپ اپنے جگر کا ٹکڑا بھی دے اور پھر بھی یہ بے حس لوگ کسی صورت طعنہ بازی سے باز نہیں آتے۔

رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ مقصد نکاح کرنا ہے جبکہ نکاح کے نام پر جو نمائش آرائی سوشل میڈیا پر کی جاتی ہے اس سے بھی نوجوان نسل کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اے کاش ہم بھی یہ سب کر سکیں۔ اس میں قصوروار صرف اور صرف اس امیر طبقے کا ہے جو کسی صورت نمائش اور دکھاوے سے باز نہیں رہتا۔اپنی امیری کا دھونس جمانے کے لیے کوئی 10 قسم کی تقریبات رکھی جاتی ہیں۔ جبکہ اسلامی طریق کار تو یہ ہے کہ سادگی سے نکاح کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہم اپنے دین کی تعلیمات سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس طریقے پر عمل کرنا اپنی توہین لگتا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے جبکہ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ ہم نے اللہ کے سامنے بھی جوابدہ ہونا ہے۔
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“

تبصرے بند ہیں.