انتخابات کے قریب آتے آتے کھیل خطرناک ہوتا جا رہا ہے اور بدلتے حالات میں بعض حلقوں کی جانب سے ذہنوں میں پھر یہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کہ کیا 8 فروری کو الیکشن ہوں گے۔ خود ساختہ ڈھیروں سروے جن میں خان کی مقبولیت ظاہر کی جاتی ہے۔ انتخابی التوا کو تقویت دیتے ہیں، ایک بڑے ”قریبی“ اور پُر اعتماد تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کے مطابق الیکشن کا صحیح اندازہ 10 یا 15 جنوری کو ہو گا جب شکوک و شہبات کے سارے دفتر لپیٹ دیے جائیں گے۔ ان کے مطابق ممکن بلکہ عین ممکن ہے کہ جنوری کے وسط میں الیکشن غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا جائے، وجہ؟ نگرانوں نے جو کام شروع کر رکھے ہیں ان کے لیے تین چار سال چاہئیں لیکن چیف جسٹس نے 8 فروری کو پتھر کی لکیر قرار دیا۔ اس لکیر کو کون مٹائے گا؟ خاص خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے تاہم اسے ناکام بنانے کے لیے خطرناک آپریشن بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ الیکشن سے قبل مکمل صفائی کا فیصلہ، بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن، وکٹیں تیزی سے گر رہی ہیں۔ صداقت علی عباسی، فرخ حبیب کے بعد احمد نواز اعوان بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر آئی پی پی کو پیارے ہو گئے۔ بالفاظ دیگر محفوظ و مامون قرار پائے۔ سیانوں نے سوال کیا کہ آئی پی پی میں جانے والے خان کے عزیز از جان تمام ساتھی بے گناہ تھے؟ بے گناہ تھے تو طویل روپوشی کا کیا مطلب؟ گناہ گار تھے اب بھی ہیں تو ان کے خلاف مقدمات کیوں نہیں چلائے گئے؟ پی ٹی آئی کے درجنوں لیڈروں نے جہانگیر ترین کے جہاز میں پناہ لے کر خطرات کے دروازے بند کر لیے، گویا پی ٹی آئی کو الٹ پلٹ کر آئی پی پی بنا دیا گیا۔ طویل روپوشی شیخ رشید کی ”چلہ کشی“ کا دوسرا نام، چلہ کاٹنے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار چپیڑیں بھی پڑتی ہیں۔ ادھر خان کے ”سچے عشاق“ کے لیے خطروں کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں فائنل آپریشن شروع ہو چکا، آپریشن (کریک ڈاؤن) تمام بڑے لیڈروں کے خلاف ہے، کچھ بھاگ گئے کچھ فرار ہوتے پکڑے گئے۔ خان ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی، فرح گوگی سمیت عمرانی کابینہ کے ان 29 ارکان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے جو بند لفافوں کی منظوری دیا کرتے تھے۔ چھڑی حرکت میں آ گئی، بیرون ملک ”ریاست دشمنوں“ کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی، گزشتہ ہفتہ ملکی تاریخ میں خاصا تہلکہ خیز رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڈیالہ جیل میں سائفر ٹرائل کی تمام کارروائی کالعدم قرار دے دی، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا۔ کیس میں تاخیری حربوں سے الٹا نقصان ہوا۔ سماعت نئے انتظامات کے تحت اب بھی جیل ہی میں ہو گی۔ سب کچھ نئے سرے سے شروع ہو گا۔ وکیل عقل کل مگر سمجھ نہ سکے موجودہ دلائل مقدمہ کی تکمیل پر دیتے تو موکل زمان پارک میں صوفہ پر بیٹھا ہوتا۔ اب ٹرائل مزید دو تین ماہ جاری رہے گا۔ انتخابات ہو چکے ہوں گے گاڑی سٹیشن چھوڑ چکی ہو گی۔ دوسرا دھچکا ضمانت کی درخواست پر لگا جو سپریم کورٹ نے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی، ایک اور بم سر پر آ کر پھٹا الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔ پارٹی کو 20 دن میں انتخابات کرانے اور 7 دن میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا ورنہ پارٹی اور بلے کا نشان بیلٹ پیپر سے غائب، بس 20 دن صبر نیا تماشا شروع ہونے والا ہے۔ خان چیئرمین رہے تو بلا اور پارٹی غائب، بلا اور پارٹی بچی تو چیئرمین غائب، ایک لاہوریے نے کہا ”لو کر لوگل، کیے کرائے پر پانی پھر گیا“ بڑے خطرناک سروے کرائے جا رہے تھے، موہنی روڈ کے ”بابے“ غصے میں تھے کہ ہم تو کھمبوں کو ہی ووٹ دیں گے، زیر سماعت مقدمات میں خان کے لیے مختلف المیعاد سزائیں یقینی وہ اب تک اپنی خو چھوڑنے اور وضع بدلنے کو تیار ہیں، وہ ان کے متبادل چیئرمین اور صدر تینوں جیل میں ہیں کسی اور کو قیادت سونپنے کو تیار نہیں، کاغذی پارٹی الیکشن قبول نہیں کیے جائیں گے، چالاکیاں پارٹی کو لے ڈوبیں گی، بقول ہمارے دوست شاعر ”صورتحال ہے پراگندہ وجہ اس کی بتائے کیا بندہ، بات یہ ہے کہ ایک مچھلی نے پورا تالاب کر دیا گندہ“ جیل سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں، نومبر کے آخر تک جیل سے باہر آنے کی ”سوشل میڈیائی خوشخبریاں“ ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ غضب خدا کا خاور فرید مانیکا کو بھی ابھی انٹرویو دینا تھا۔ اس سے غرض نہیں کہ بندے نے سچ بولا یا جھوٹ الزامات خوفناک بلکہ خطرناک ہیں۔ خاور مانیکا کے مطابق خان نے ان کی 28 سالہ گھریلو زندگی برباد کر دی، گھر میں گھس کر نقب لگائی، میرے حکم پر ملازم نے خان کو گھر سے نکالا، بشریٰ بی بی نے دس دن میں ملازم محمد حسین کو ملازمت سے نکال دیا۔ شنید ہے انٹرویو سن کر خان کی ذہنی حالت اتھل پتھل ہو گئی جس کے بعد جیل حکام نے نگرانی سخت کر دی، ایسی جگہ رکھے گئے ہیں جہاں کی خواہش مرزا غالب نے کی تھی کہ ”رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو، ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو“ وقت گزرنے کے ساتھ کیس بنتے جا رہے ہیں 190 ملین پاؤنڈ میں مبینہ طور پر 171 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے 19 ملین پاؤنڈ کہاں گئے کرپشن میں کرپشن، نیب کے سوالات پر آئیں بائیں شائیں سردی میں حضرت کے پسینے چھوٹ گئے۔ عدت میں شدت کا کیس درخواست واپس لینے پر خارج، درخواست واپس کیوں لی گئی؟ کیس آخری مرحلہ میں تھا، الزام ثابت ہو جاتا تو حدود آرڈی ننس لاگو، 62 ون ڈی ای ایف کے تحت تاحیات نا اہلی، کیس خارج مگر حدود اللہ کی خلاف ورزی برقرار، سزا سنگسار، یہ کیسے واپس ہو گی، شرعی احکامات ناقابل واپسی، طرفہ تماشا ہے بیٹی کو ولدیت نہیں دیتے، عدت میں شدت کا مظاہرہ، ہاجرہ پانیزئی کرتوتوں پر پوری کتاب لکھ لائی، ریحام خان دوسری کتاب لکھ رہی ہیں۔ سیاسی اور اندھی عقیدت اپنی جگہ شریعت محمدی کیا کہتی ہے۔ آپ شریعت اور قرآنی احکامات کو نہیں مانتے آپ کا تعلق یقینا قوم یوتھ سے ہے۔ خان کو جھٹکے پہ جھٹکے لگ رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے درجہ اول کے تھنک ٹینک مشاہد حسین سید کا یہ کہنا ناقابل فہم ہے کہ سیاسی قیادت کو سزاؤں اور مقدمات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی مقبولیت اصل مسئلہ ہے۔ ممتاز اور معروف صحافی بھی اس سوال پر سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے محترم سہیل وڑائچ سے پوچھا گیا کیا خان کو الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے؟ جواب دیا ہماری خواہش تھی کہ انہیں نا اہل نہ کیا جاتا لیکن ہماری خواہش نواز شریف کے بارے میں 2018ء میں پوری ہوئی نہ اب ہو گی“۔ ایک پلڑے میں احکامات ربانی دوسرے میں احکامات زمانی، ”زمانے کی قسم بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور حق اور صبر کی وصیت و تلقین کی“۔ آئندہ وزیر اعظم کے بارے میں محترم سہیل وڑائچ نے رائے دی کہ نواز شریف کے نام پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی ہے کوئی حادثہ نہ ہوا تو وہی آئندہ وزیر اعظم ہوں گے۔ ایک اور دانشور نے فرمایا کہ باپ کا باپ قابو میں ہے تو ن لیگ کو کوئی پریشان نہیں۔ الیکشن کی تیاریوں کا ذکر آیا تو بلاول بھٹو ثم زرداری کو داد دیجئے کہ انہوں نے چند ماہ قبل اپنے بہترین وزیر اعظم شہباز شریف کو مہنگائی وزیر اعظم قرار دے کر دور پھینک دیا اور سیاست میں ”خواہش کا تڑکا“ لگا کر انتخابی مہم میں ن لیگ سے بازی لے گئے۔ دو تین جلسوں میں ”بابوں“ سے کہا۔ ”گھر بیٹھو دعائیں کرو نوجوانوں کو وزیر اعظم بننے دو“ ن لیگ خاموش مہر بلب انتخابات کے بعد پی پی سے اتحاد کی خواہش مند، لیکن ابا جان (آصف زرداری) نے بروقت انٹرویو میں پورے بیانئے پر خاک ڈال دیا۔ کہا بیٹا لائق فائق لیکن نا تجربہ کار، تجربے کا کوئی متبادل نہیں، ایسا لگا گویا کہہ رہے ہوں۔ ”ابھی تم طفل مکتب ہو کہیں کھو دو گے سائفر کو، تمہاری ہی سیاست ہے کر لینا جواں ہو کر“ (شعر کا ستیاناس کرنے پر معذرت) بیٹا جی ناراض ہو گئے۔ بابا سمیت ”بابوں“ کو ان کا بیانیہ اچھا نہیں لگا لیکن کیا بابے 71 سالہ نوجوان عمران خان کے 3 کروڑ نوجوان ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر سکیں گے؟ کیا بقول رانا ثنا اللہ مسلم لیگ ن 125 سیٹیں لے لے گی؟ دعووں سے قطع نظر حوصلہ شکن اور خطرناک سروے ن لیگ کے لیے ہی نہیں نواز شریف کے حامیوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ عبدالحمید عدم نے کہا تھا۔ ”اے عدم احتیاط لوگوں سے، لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں“ لوگ مایوس ہیں لوگ پریشان ہیں اپنے بھی غصہ میں ہیں۔ میاں صاحب پہاڑوں سے اتر کر شہروں میں آئیں اپنا سیاسی ہنر آزمائیں، تو ممکن ہے عوام کی مایوسی پریشانی ختم ہو سکے، غصہ کم ہو سکے تب ہی موہنی روڈ اور گوالمنڈی کے لوگ کھمبوں کے بجائے بندوں کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوں گے۔ آخر میں ایک بات سن لیجئے ایک کہانی اتفاق رائے سے ختم کر دی گئی ہے نئی کہانی کا خاکہ تیار کیا جا رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.