نواز شریف نے ہسٹری پڑھنے والوں کو بتایا

51

ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ گزشتہ 76 برسوں میں نکالے جانے والے وزرائے اعظم کے جذبات بھی یہی تھے جو اَب نواز شریف کے ہیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بابائے قوم قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی مبینہ خراب ایمبولینس میں موت پر باربار سوالات اٹھنے کے باوجود حکومتیں سات دہائیوں سے خاموش ہیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مبینہ پراسرار قتل کے کھوج کے لئے دی جانے والی درخواستیں کالے کمروں میں گم ہوگئیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے مخفی محرکات اور مشکوک تحقیقات کے بعد کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ مقتول لیاقت علی خان کو انصاف مل گیا ہے؟ نواز شریف مولوی تمیز الدین کیس کی مثالیں دے کر کالے فیصلوں کی کالی تاریخ لوگوں کو بتاتے ہیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ یہ پاکستانی جمہوریت کی ہسٹری میں ایک بڑا کالا فیصلہ ہی تھا لیکن مولوی تمیز الدین کے واویلے اور جج کورنیلیس کے اختلافی نوٹ کے باوجود جسٹس محمد منیر کے کالے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء کے خلاف عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کے احتجاج پر اُن کی گرفتاری کا فیصلہ ہسٹری کا کالا فیصلہ قرار پانے کے باوجود بھی آئندہ آنے والی غیرجمہوری گرفتاریوں کو روک نہیں سکا۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے اُن کی درخواست نظریہ ضرورت کی دلیل پر مسترد کردی تھی۔ نظریہ ضرورت کا لفظ عدالتی فیصلوں میں کالا تسلیم ہونے کے باوجود کیا جمہوریت کو ریلیف مل گیا؟ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے عدالتی فیصلے کو تاریخ کے کالے ترین فیصلے کا مقام ملنے کے باوجود بھی پاکستانی جمہوریت کو کالے فیصلوں نے ڈسنا نہیں چھوڑا۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہی نیم جمہوری پودے کو اکھاڑنے کا ارادہ کیا اور محمد خان جونیجو کی حکومت کو برخواست کردیا تو وہ اس کالے فیصلے کی کالک سے خود بھی ڈسٹرب ہوگئے تھے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ غیرمعمولی ذہنی ٹینشن میں آگئے اور اُس شام وہ معمول سے ہٹ کر دیر تک لان میں چہل قدمی کرتے رہے۔ کیا جنرل ضیاء الحق کے اس پچھتاوے نے مستقبل کی اسمبلیوں کو برخواست کرنے کے کالے فیصلوں کے آگے کوئی بند باندھا؟ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بینظیر کی حکومت گرانے اور آئی جے آئی کو بھی جمہوری ہسٹری میں کالے فیصلے ہی لکھا جاتا ہے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں نوے کی دہائی میں کون کون سے صدارتی و عدالتی کالے فیصلے ہوئے، کون کون سے بل پارلیمنٹ میں نیتوں کو کالا کر گئے، کون کون سے ہارس ٹریڈنگ جیسے کالے ہتھکنڈے حکومتیں بچانے کے لئے استعمال کئے گئے اور کون کون سی اخلاقی تذلیل کے کالے راستے اپوزیشن کو مات دینے کے لئے مخالفین کے خلاف اپنائے گئے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ مارشل لاء ایک کالا طرزِ حکومت ہونے کے باوجود مستقبل کے مارشل لاؤں کا گلا نہ دبا سکا اور 1999ء میں چوتھی مرتبہ پھر مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ اُن کی جمہوریت کا ساتھ دینے والے کئی سیاست دان کالا فیصلہ کرکے جنرل مشرف کے ہم آواز بن گئے اور مارشل لاء کی کالی چھتری کے زیر سایہ جمہوریت کا تانگہ چلانے پر فخر کرتے رہے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف کی کالی قید سے اُن کا ایک کالی رات کو اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کے لئے سعودی عرب چلے جانے کو بھی لوگ جبراً جلاوطنی ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ وزیر  اعظم یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کو بھی پیپلز پارٹی والے کالا فیصلہ ہی کہتے ہیں۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ غریب اور ماتحت جمہوریتوں میں انقلابی اقدامات کالے کردیئے جاتے ہیں۔ ان ملکوں کے نظام میں تبدیلیاں گھڑی کی سوئی کی ٹک ٹک کی طرح آہستہ آہستہ سفر طے کرتی ہیں اور ان ملکوں میں حکومتوں کے آنے جانے کا تعلق بیرونی طاقتوں سے بھی ہوتا ہے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بیرونی طاقتوں میں اُن کے تین بہترین دوستوں سعودی عرب، ترکی اور چین کے ہونے کے باوجود وہ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سے نکالے گئے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بعض اوقات اقتدار سے نکالنے کا راستہ موت کی راہداری سے ہوکر جاتا ہے مثلاً جیسا کہ ابراہم لنکن، جان ایف کینیڈی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، صدام حسین، لیاقت علی خان، جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن نواز شریف تین مرتبہ اقتدار سے نکل کر خوش قسمتی سے محفوظ راہداری کے ذریعے پھر پبلک تک پہنچ گئے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ غریب اور ماتحت جمہوریتوں میں حکمرانی کے آئینی عرصے کے حق کو دل سے نہیں لگایا جاتا کیونکہ اِن ممالک میں حکمرانی کا آئینی عرصہ وہی ہوتا ہے جتنا عرصہ وہ حکمران حکومت کرجائے۔ ہسٹری پڑھنے والے نواز شریف کو بتاتے ہیں کہ بیشک ہسٹری ان فیصلوں کو کالا ہی مانتی ہے لیکن ہسٹری کے ماننے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن نواز شریف ہسٹری پڑھنے والوں کو یہ بتاکر چپ کرا دیتے ہیں کہ سات دہائیوں سے سنہری فیصلے نہ سہی لیکن ہر روز ایک سنہرا سورج ضرور نکل رہا ہے جو ہمارے روشن مستقبل کی نشانی ہے۔

تبصرے بند ہیں.