اگلے دن ممتاز دانشور، عوامی زبان میں بات کرنے والے معروف صحافی گوہر بٹ، کے ویلاگ جو ہمیشہ ہی لگی لپٹی کے بغیر بات کرتے ہیں، نے شہباز شریف کی آشیانہ کیس میں رہائی سے بات شروع کی بعد میں آصف زرداری کی ق لیگ، پیپلز پارٹی کی قیادتوں ورکروں کی سزاؤں اور مقدمات اور پھر بری ہونے کا دکھی دل سے ذکر کر کے کہا کہ کوئی ہے جو سوری کا لفظ ہی بولدے۔ میں سوچ رہا تھا یہاں گریٹ بھٹو کو سولی چڑھا کر کسی نے سوری نہیں کہا۔ وطن عزیز کو افغان روس، افغان امریکہ وار کا ایندھن بنا کر سوری نہیں کہا، کرپشن کے ثبوت، اوجڑی کیمپ کی طرح اڑا دیئے گئے۔ بہرحال آج میں بات شروع کرنا چاہ رہا تھا، منو بھائی کی پنجابی شاعری سے:
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں بارے کیہہ پُچھدے او
ایہہ تہانوں کہیہ دسن گے، کیوں دسن گے؟
دسن گے تے جنج وسدے نیں، کنج وسن گے
کون کہوے میرا پتر ڈاکو
قتل دا مجرم میرا بھائی
میرے چاچے جائیداداں تے قبضے کیتے
تے لوکاں دی عمر کمائی
لُٹ کے کھا گئی میری تائی
میرے پھُپھڑ ٹیکس چرائے
میرا ماما چور سپاہی
دتی اے کدی کسے نے اپنے جرم دی آپ گواہی
کیہڑا پاندا اے اپنے ہتھ نال
اپنے گل وچ موت دی پھاہی
کھوجی رسہ گیر نیں سارے کیہہ پچھدے او
اک دوجے دے جرم سہارے کیہہ پچھدے او
ڈاکواں کولوں ڈاکواں بارے کیہہ پچھدے او
اوکھا سپ توں منکہ منگناں
شیر دے منہ چوں بوٹی کھوہنی
اِلاں کولوں ماس نئیں ملدا
ہونی نئیں ہوندی ان ہونی
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں
منگیاں کدی ثبوت نئیں لبھدے
فائیلاں وچ گواچے ہوئے
بڑے بڑے کرتوت نئیں لبھدے
رل کے مارے، مل کے کھاہدے ہوئے لوکاں دیاں
قبراں چوں کلبوت نئیں لبھدے
احتساب دے چیف صاحب بہادر!
پہلے پنجھی سالاں دے وچ
ادھا ملک گوا بیٹھے آں
چھبی سال دے مارشل لا وچ
باقی عمر ہنڈا بیٹھے آں
مگر اب حالات بدل چکے ہیں پجارو کی جگہ ڈالے، لینڈ کروزریں، فارم ہاؤسز، جزیرے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدل دیا گیا ہے۔ اب صاحب بہادر کا بھی احتساب ہونا چا ہیے اب پکارنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ ایک مادر پدر آزاد سیاست دان کے روپ میں آنے والے شخص نے معاشرت بھی زمین بوس کر دی۔ بے شرمی، جھوٹ اور کرپشن برہنہ محو رقص ہے۔ ہر شخص کی اپنی رائے ہے میری رائے میں گریٹ بھٹو اور اُن کی بیٹی کے علاوہ کسی سیاسی حکمران نے عوام کے لیے سوچا نہ کچھ کیا۔ گریٹ بھٹو تو بہت کچھ کر گئے مگر محترم بی بی کو کچھ کرنے نہ دیا گیا اور کبھی 18 ماہ، کبھی ڈھائی سال اور پھر موت کی وادی میں اتار دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے بہت کچھ کیا اور بدلے میں قید اور جلا وطنی بھی دیکھی میں نے 35 سال سے زائد عرصہ اپنی معاشرت میں لوگوں کو بہت کرب میں دیکھا ان کا کرب محسوس کیا۔ لوگوں کے کام ختم نہیں ہوتے غم ختم نہیں ہوتے کیونکہ سرے سے کوئی نظام عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ جناب فہیم گوہر بٹ آپ زرداری اور شہباز شریف کی بات کرتے ہیں یہاں پر سیکڑوں سولیاں بے گناہوں کا مقدر بنیں اور نہ جانے کئی ہزار بلکہ لاکھوں لوگ بے گناہ قید کاٹ گئے۔ مگر ایسی مثالیں آزادی سے پہلے نہیں ملتیں۔ تحریک آزادی ہند اور تحریک پاکستان کی بات الگ ہے مگر عوام کے مقدمات اور معاملات میں انصاف ہوا کرتا تھا۔ گورے نے ریلوے، نہری نظام، ایئر لائنز، افواج، قانون، عدالتی نظام، سڑکوں کی تعمیر نہ جانے کتنے ہی اقدامات کیے اور ہسپتال بنائے مگر اس کو بنیاد بنا کر حکومت کرنے کو حق نہیں کہا۔ اُس کو معلوم تھا کہ وہ غاصب ہے ہم آزادی چاہتے ہیں۔ اب آزادی کے بعد کی صورت حال پھر ایوب خان 8 سال آرمی چیف 10 سال کے لئے صدر بن گیا۔ یحییٰ ہوا، 1971 ہوا، 5 جولائی، 4 اپریل 1979، 12 اکتوبر 1999 ہوا پھر درمیان 25 جولائی 2018 ہوا اور یوں کام تمام ہوا۔ امریکی ڈونلڈ بلوم کی ملاقاتیں، برطانیہ کے سفیر کی ملاقات اور سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی باتیں اور ورکروں کی امنگیں، کیا یہ جمہوریت ہے کیا یہ نظام حکومت ہے؟ اگلے روز موقر دانشور افتخار احمد کہتے ہیں کہ میں بھی کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا مگر مخالفت سے کیا ہوا اگر میرے خاندان مجھے اور ملک کا فائدہ نہیں ہوا تو پھر مخالفت کا کیا فائدہ۔ موصوف اس وقت فرما رہے جب میاں صاحب کے لیے نرم گوشہ محسوس کر رہے ہیں۔ درمیان میں انہوں نے گریٹ بھٹو صاحب کی بات بھی کی مجھے بہت دکھ ہوا کہ افتخار احمد صاحب ایک زیرک، حقیقی معنوں میں دانشور اور بائیں بازو کی سیاست کے آدمی ہیں۔ میں اُن سے سوال کرتا ہوں کہ بھٹو صاحب تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہ تھے، انہوں نے تو فوج کو بے مثال قوت اور طاقتور بنانے کے لاجواب انتظامات کیے کچھ اس طرح کہ اپنے زندگی بھی قربان کر دی کبھی سہیل گوئندی کے پروگرام نوابزادہ نصراللہ خان، عبد الحفیظ پیرزادہ، پروفیسر غفور احمد اور این ڈی خان کا انٹرویو سنیں۔ ضیاالحق تو سیلاب کی طرح حکومتی ایوانوں حتیٰ کہ وزیر اعظم ہاؤس اور جہاں مذاکرات کا آخری دور چل رہا تھا، زبردستی بن بلائے بہانے سے اندر گھس آیا جس پر نوابزادہ صاحب نے کہا کہ ہم سے براہ راست مخاطب نہ ہوں وزیراعظم بھٹو صاحب سے بات کریں۔ افتخار احمد صاحب میاں نواز شریف کو جواز فراہم کرتے کرتے تاریخ مسخ کر گئے۔ یہ جمہوریت ہے جس میں 2013 میں گومگوں کی کیفیت ہے۔ 2018 میں بندو بست مکمل ہونے پر ہاری بھی جانتا تھا کہ عمران آ رہا ہے اب 2024 میں بھلے نواز شریف کی پوزیشن بہتر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں جس نے 10 اپریل 1999 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا لاہور میں استقبال دیکھا، 18 اکتوبر 2001 کو کراچی میں استقبال دیکھا اور جنہوں نے بھٹو صاحب کے لیے آسمان کو گواہی دیتے دیکھا وہ یہ نہیں تھا کہ آ رہا ہے یا بی بی آ رہی ہے بلکہ یہ تھا کہ کوئی روک نہیں سکتا مگر تیسری بار بی بی زندگی ہار گئی، انتخابات ان کا کفن جیت گیا۔ جناب گوہر بٹ نے ٹھیک کہا کہ ہمیں رعایا سے عوام بھٹو صاحب نے بنایا تھا مگر یہ امریکیوں، گوروں کی ملاقاتیں، جیل میں ملاقاتوں کی افواہیں مجھے تو لگتا ہے کچھ نہیں بدلا، وائسرائے، وزیر اعظم بدل گئے مگر برصغیر کے اس خطے میں رعایا نہیں بدلے۔ بلاول نے پرانے لوگ فارغ کرنے کا عندیہ دیا ہے ضرور کریں مگر اس کی ابتدا اگر پیپلز پارٹی سے کریں گے تو نئے چہرے پیپلز پارٹی کو کھویا ہوا مقام کم از کم پنجاب میں ضرور واپس دلا سکیں گے ویسے اگر ہر سیاسی جماعت اپنی جماعت کے اندر جماعتی انتخابات کا بندوبست کرے تو جمہوریت کی صورت گری ہو سکتی ہے۔ نئے چہروں کے بغیر ڈیموکریسی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور بیوروکریسی اب بوجھ بن چکی ہے۔ اس کی تعمیر نو کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
تبصرے بند ہیں.