کل اسلامی اخوت تو آج کیا؟؟

17

نگران حکومت کے کاندھوں پر شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ نگرانوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ انتخابی عمل سے جڑے معاملات کی نگرانی کریں، روزمرہ کے حکومتی امور نمٹائیں، انتخابات کا انعقاد کروائیں اور اس کے بعد گھر کی راہ لیں۔ تاہم اس وقت صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور ان کی حکومت کی توجہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کی جانب مبذول ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ کا یہ طرز عمل تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ ان کے کرنے کے کام نہیں ہیں۔ اس کے برعکس یہ نقطہ نظر بھی موجود ہے کہ مفاد عامہ کے تناظر میں یہ امر خوش آئند ہے کہ عوامی فلاح کے منصوبے جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت بھی انتخابات سے ہٹ کر مختلف امور نمٹانے میں مصروف ہے۔ کچھ ایسے حساس معاملات پر بھی حکومت نے کمر کس رکھی ہے جو وسیع تر قومی مشاورت کے متقاضی ہیں۔ مثال کے طور پر قومی ادارو ں کی نجکاری کا معاملہ۔ماضی میں منتخب حکومتیں بھی یہ بھاری پتھر اٹھانے سے قاصر رہی ہیں۔ بہر حال کہا جا رہا ہے کہ نجکاری کا فیصلہ نگران حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔تاہم نگران مصر ہیں کہ یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔ نگران وفاقی حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم بھی جاری کر رکھا ہے۔ در حقیقت یہ حکم افغان مہاجرین کے لئے ہے۔ اس فیصلے کو بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کو دباو کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ اس حکمنامے کے بعد سے افغان مہاجرین کے انخلاء اور وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔

مختلف حلقوں کی جانب سے بجا طور پر کہا جا رہا ہے کہ اس حساس معاملے کا فیصلہ انتخابات کے بعد منتخب حکومت کو کرنا چاہیے تھا۔ اصولی طور پر ایسے معاملات کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا اگر تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈروں کی مشاورت کے بعد اس ضمن میں کوئی فیصلہ کیا جاتا۔ 1980 میں جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں افغانوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی گئی اور ان کی مہمان نوازی کا فیصلہ ہوا۔ حکومت پاکستان نے ان کی خوراک اور رہائش کا ذمہ اٹھا یا۔ انہیں باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں رکھا۔ اس وقت ہم پر امریکی ڈالروں کی بارش ہو رہی تھی۔ اس لئے یہ بوجھ اٹھانا ہمیں بخوشی گوارا تھا۔ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بھی کسی کو ان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا خیال نہیں آیا۔ اس دوران، ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، لیکن منتخب سیاسی حکومتیں بھی آئیں۔ تین مرتبہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بنی۔ تین مرتبہ مسلم لیگ(ن) کی۔ ایک مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور سولہ مہینے کے لئے پی۔ ڈی۔ایم کی۔ کسی حکومت کے سامنے یہ مسئلہ آیا بھی تو اس نے نگاہیں چرا لیں۔

اب یکایک نگرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کئی دہائیوں سے یہاں بستے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان افغانوں کو کان سے پکڑ کر ملک بدر کر دیا جائے۔ ان افغانوں کی تین نسلیں یہاں رہ رہی ہیں۔ بیشتر افغان محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو یہاں کاروبا ر کرتے ہیں۔ ا نہوں نے یہاں چھوٹے موٹے گھر یا ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ ان کے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں۔ اب بیٹھے بٹھائے انہیں در بدی کا سامنا ہے۔ ایک افغان کو میں بھی جانتی ہوں۔ وہ پچھلے پندرہ سال سے میری امی کے گھر چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ اس کے نو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ وہ سارا دن سائیکل پر گھومتا، کبھی کوڑا کرکٹ اکھٹا کرتا۔ کبھی گاڑیاں صاف کرنے اور صفائی ستھرائی کا کام کرتا۔ نگران حکومت کے حکم کے بعد وہ یہاں سے چلا گیا ہے۔ خیال آتا ہے کہ دس چھوٹے بچوں اور بیوی کے ساتھ وہ بے چارہ کہاں بھٹکتا پھرتا ہوگا۔ ان بچوں کو لے کر کہاں جائے گا۔ ارسر نو کیسے جھونپڑی کا بندوبست کرئے گا۔ یہ صرف ایک افغان کنبے کی کہانی نہیں ہے۔ ہزاروں گھرانوں پر یہ بیت رہی ہے۔ اگر کسی کی بیوی حاملہ ہے۔ کسی کے والد، والدہ کا آپریشن ہے۔ کسی کے بچے کے امتحانات ہونے والے ہیں۔ کسی نے کوئی کاروباری ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ وہ یکایک یہ ملک چھوڑ کر کیسے چلا جائے۔ یہ سب نہایت تکلیف دہ ہے۔

کل تک ہم اسلامی بھائی چارے اور اخوت کا نعرہ لگا کر انہیں پاکستان لائے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ اب یہ بھائی چارہ اور اخوت راتوں رات کہاں غائب ہو گیا ہے؟۔ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے چند دن پہلے سینٹ میں بجا طور پر فرمایا ہے کہ یہ ظلم ہے۔ ہمیں خدا کا خوف کھانا چاہیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب ” 1980 کے قریب ایک جنگ میں ہم شریک تھے اور ایک غیر منتخب حکومت نے ہمیں یہ باور کرایا تھا کہ یہ جہاد ہے اور یہ کہ ہم روس کے خلاف اپنے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ ہم اس جنگ کو لڑتے رہے اور اسے جہاد سمجھتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور صاحب آئے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ نہیں، اب جو جہاد ہے وہ افغانوں کے خلاف ہے۔ اب امریکہ کے شانہ بشانہ ہو کر لڑنا جہاد ہے“۔ صدیقی صاحب نے درست کہا کہ ”اس معاملے میں ہمیں امریکہ اور برطانیہ کی مثال مت دیں کہ وہاں ایک دن بھی ویزہ کے بغیر رہیں تو وہ کان سے پکڑ کر ہمیں ملک بدر کر دیتے ہیں۔ وہ اس لئے ہمیں ملک سے نکالتے ہیں کہ ہم لوگ ویزے لے کر وہاں آتے ہیں۔ کیا یہ افغان ویزے لے کر آئے تھے؟ اس وقت تو آپ نے بانہیں کشادہ کیں۔ اسلامی اخوت کا بہت چرچا ہوا۔ انصار مدینہ کی مثال دی گئی افغانوں کو کسی سلیقے سے نکالیں۔ کوئی میکینزم بنائیں۔ کوئی ٹربیونل بنائیں۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ڈنڈے مار کر نہ نکالیں۔“

اس معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جو صدیقی صاحب نے اجاگر کیا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں غیر قانونی طور پر مقیم وہ افغان بھی ہیں جو لاکھوں کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور کروڑوں، اربوں روپے کے پلازوں کے مالک بن گئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو جعلی کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ جو بھی ہے حکومت کو غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افغانوں کو یہاں سے کسی مناسب طریقہ کار کے تحت رخصت کرنا چاہیے۔ ہم کیوں ان افغانوں کو ناراض کر رہے ہیں جن کی چالیس برس تک ہم نے مہمان نوازی کی ہے۔ افغانستان کے عبوری وزیر اعظم کا بیان میری نگاہ سے گزرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانوں کی تذلیل نہ کرئے۔ ان کو واپسی کے لئے وقت دیا جائے تاکہ وہ عزت کے ساتھ اپنے ملک واپس جا سکیں۔ افغان وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آپ کا ہماری حکومت کے ساتھ مسئلہ ہے۔ اس کا غصہ آپ بے گناہ لوگوں پر کیوں نکال رہے ہیں۔ عالمی ادارے بھی اس طرز عمل پر ہمیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے نگران حکومت کے فیصلے کے بعد پاکستان کو پیغام دیا کہ افغانوں کی ملک بدری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ کسی بھی ممکنہ واپسی کو محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ طریقے سے یقینی بنایا جائے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ افغانوں کی زبردست واپسی کا عمل معطل کیا جائے۔ دنیا میں ہمارا تاثر پہلے ہی اچھا نہیں ہے۔ دنیا ایک مرتبہ پھر ہمیں حقوق انسانی کا درس دے رہی ہے۔ یہ سب کسی مناسب طریقہ کار کے تحت کیا جاتا تو بہت اچھا تھا۔ افغانوں کو دھکے دینے کے بجائے، عزت، احترام کے ساتھ رخصت کرنے کی پالیسی بنائی جاتی تو حکومت کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

تبصرے بند ہیں.