حامد بھٹی کے والد سے میری صرف چار پانچ ملاقاتیں ہیں۔ پہلی بار جب یہ میرے دفتر آئے تو ان کے ساتھ مسکین سی شکل و صورت کا ایک لڑکا بھی تھا جو اپنے حلیے سے ہی ضرورت منددکھائی دے رہا تھا۔ کلف لگے سفید لٹھے کی شلوار قیمص کے ساتھ پرانی سی واسکٹ پہنے بھٹی صاحب کی ابتدائی گفتگو سے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی شوباز قسم کے سیاسی کارکن ہیں۔ بھٹی صاحب نے میرے سامنے کرسی پربیٹھتے ہی دعا سلام کے بعد باری باری اپنی واسکٹ کی اندر والی جیبوں کی تلاشی لیتے ہوئے کہا ”معاف کیجیے گا مجھے لگتا ہے میں اپنے وزٹنگ کارڈ جیب میں رکھنا بھول گیا ہوں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے نیم شرارت سے کہا ”کوئی بات نہیں جناب! مجھے آپ پر پورا یقین ہے آپ زبانی بتا دیجیے میں ہمہ تن گوش ہوں“۔ جواب میں بھٹی صاحب کے چہرے پر اُلجھن کے آثار دیکھ کر میں نے بھانپ لیاکہ انہیں میری شرارت ”ہمہ تن گوش“ کی سمجھ نہیں آئی ہے۔ لہٰذا میں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ”میرا مطلب ہے میں پوری توجہ سے آپ کی بات سُن رہا ہوں آپ فرمائیے“۔ اس پر بھٹی صاحب تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگے ”اُن کا نام عاشق بھٹی ہے اور وہ حکومتی پارٹی کے ایک اہم مقامی رہنما ہیں۔ شہر میں جس حلقے سے وزیر اعظم صاحب انتخاب لڑتے ہیں اُن کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے اور ہر الیکشن میں ڈور ٹو ڈور کمپین اور پارٹی کی کارنر میٹنگز میں ایک قابل اعتماد پارٹی کارکن کے طور پر وہ دن رات وزیر اعظم کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب ہمارے حلقے کے علاوہ احتیاطََ ملک کے دو اور حلقوں سے بھی الیکشن لڑتے اور جیتتے ہیں مگر الیکشن کے بعد وہ باقی سیٹوں کوچھوڑ کر آخر میں اپنے پاس ہمارے حلقے کی سیٹ ہی رکھتے ہیں۔ یہ حلقہ ایک طرح سے اُن کا آبائی حلقہ ہے اس لیے کہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا پہلا بڑا الیکشن اسی حلقے سے جیتا تھا۔ ویسے تو وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن اپنے حلقے کے لوگوں کا وہ خاص طور پر بہت خیال رکھتے ہیں اور مجھے تو وہ ہمیشہ”میرا لاڈلا بھٹی“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ بس جی خاندانی بندے کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اچھے دنوں میں بھی اپناساتھ دینے والوں کو نہیں بھولتا۔جب بھی کسی محفل یا جلسے میں اُن سے ملاقات ہوتی ہے اتنی محبت اور گرمجوشی سے ملتے ہیں کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ کئی دفعہ لوگوں کی موجودگی میں مجھے کہہ چکے ہیں ”بھٹی لاہور والی سیٹ میں ہمیشہ تمہارے جیسے کارکنوں کی وجہ سے جیتتا ہوں۔ آج اگر میں ملک کا وزیر اعظم ہوں تو بھٹی اس میں تم اور تمہارے جیسے پارٹی کے مخلص کارکنوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ بھٹی آپ اور آپ جیسے پارٹی کے دوسرے سب وفادار کارکن میرے ذہن میں ہیں۔بس ذراحکومت ٹھیک طرح سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے تو آپ کے مسئلے مسائل کا حل بھی کریں گے“۔ جناب دوسروں کا تو مجھے پتا نہیں لیکن میں ٹھہرا ایک سیدھا سادا، درویش مند، بے لوث اور مخلص سیاسی کارکن مجھے اپنے لئے کسی عہدے یا فائدے کا کوئی لالچ نہیں ہے۔اب دیکھیں ناں ہماری پارٹی حکومت میں آئی ہے تو ایک طرح سے یہ ہماری اپنی حکومت ہی ہوئی ناں۔ یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے میرے جیسے نمانے بندے کا بھی اپنے علاقے میں اپنا اچھا خاصا ٹہکا ہو جاتا ہے۔ پارٹی کے ہر بڑے لیڈر اور وزیرِ اعظم صاحب کے ساتھ مختلف موقعوں پر میری بہت سی تصویریں ہیں جنھیں میں نے بڑے سائز میں فریم کروا کے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں سجایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس پارٹی سربراہ کے کئی تعریفی خط اور سرٹیفکیٹ بھی موجود ہیں جنھیں میں اپنے ملنے جلنے والوں اور دوست رشتے داروں کو بڑے فخر سے دکھاتا ہوں“۔ بھٹی صاحب کی زبانی اُن کا شیخیوں بھرا تعارف سُن کر اب مجھے کچھ اُلجھن ہونے لگی تھی۔ میں نے بات مختصر کرنے کے لئے کہا ”بھٹی صاحب! یہ بتائیے میرے لائق کیا حکم ہے“۔ اس پر بھٹی صاحب نے کہا ”حکم شکم کچھ نہیں ہے جناب بس ایک درخواست ہے“۔ میں نے کہا ”جی کہیے“۔ اس پر وہ اپنے ساتھ لائے لڑکے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے ”اس نالائق کی سفارش کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ یہ بہت غریب اور ضرورت مند ہے اوپر سے شادی شدہ اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ بھی ہے، اسے اپنے پاس کسی نوکری پر رکھ لیں“۔ مجھے لگا بھٹی صاحب اپنی دیہاڑی کے چکر میں مجھ پر اپنے تعلقات کا رعب ڈال کر اس نوجوان کو نوکری دلوانے کا جھانسہ دے کر میرے پاس لائے ہیں۔ میں نے پوچھا ”یہ آپ کا کیا لگتا ہے“۔ کہنے لگے ”اپنا بچہ ہی سمجھیں جی“۔ میں نے کہا ”بھٹی صاحب! آپ اتنے بڑے سیاسی ورکر ہیں آپ کو یقیناً پتا ہوگا کہ یہ ایک سرکاری محکمہ ہے اس میں جو بھی نوکری آتی ہے اس پر بھرتی کے لئے ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ میں یا ہمارے ادارے کا کوئی دوسرا افسر طے شدہ طریقے کے بغیر کسی کو نوکری پر نہیں رکھ سکتے“۔ میری بات سن کر بھٹی صاحب نے ایک لمحے کے لئے کچھ سوچا اور پھر کہنے لگے ”جناب! میں نے آپ کو بتایا ناں یہ بہت ضرورت مند ہے آپ بیشک فی الحال اسے کچی نوکری پر رکھ لیں یہ آپ کے سبھی چھوٹے موٹے کام کر دے گا نصیب میں ہوا تو بعد میں پکا بھی ہوجائے گا“۔ یہ سن کرمیں نے طنزاً کہا ”بھٹی صاحب آپ کی اتنی اوپر تک پہنچ ہے آپ سیدھا وزیر اعظم سے کہہ کر اسے پکی نوکری پر کیوں نہیں رکھوا لیتے“۔ کہنے لگے ”یہی تومجبوری ہے کہ میں اس کے لئے اوپر والوں سے نہیں کہہ سکتا“۔ میں نے پوچھا ”وہ کیوں بھٹی صاحب“۔ اس پر بھٹی صاحب نے کسی تھکے ہوئے شخص کی مانند میری طرف دیکھا اور کہا ”جناب یہ میرا سگا بیٹا ہے پارٹی کے لئے دن رات کام کرنے کی وجہ سے میں اسکی تعلیم وتربیت پر توجہ نہیں دے سکا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میری ساری زندگی سیاسی جدوجہد میں گزر ی ہے۔ اس دوران میں نے جیلیں کاٹیں، پولیس کے ڈنڈے کھائے اور اپنا روزگار تک برباد کردیا لیکن خدا گواہ ہے کبھی پارٹی اور اپنے لیڈر سے دغا نہیں کیا۔ پارٹی کو جب بھی میری ضرورت پڑی ہے میں نے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔پارٹی کے سبھی چھوٹے بڑے میری ان قربانیوں کو مانتے بھی ہیں۔پارٹی میں میری بڑی عزت اور ٹہکا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں میں اپنے اس نالائق بیٹے کی دو ٹکے کی نوکری کے لئے پارٹی کے بڑوں کے آگے سوال کر کے اپنی عمر بھر کی عزت تو داؤ پر نہیں لگا سکتا“۔
تبصرے بند ہیں.