سب سے مشکل دھندا سیاست

94

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سب سے مشکل دھندا کون سا ہے تو میں بلاتوقف کہوں گا سیاست، ہاں، اس پر ضرور اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ سیاست دھندا ہے بھی یا نہیں۔ سیاست کامطلب اگر ملک و قوم کی بے لوث خدمت ہے، سچ پر ڈٹ جانا، لوگوں کو آسانی دینا ہے تو یہ دھندا نہیں پیغمبرانہ ذمے داری ہے لیکن دوسری طرف دھندے میں کمایا جاتا ہے اور تاثر یہی ہے کہ سیاستدان اس کے ذریعے کماتے ہیں اور ڈھیروں کماتے ہیں۔ میں لوگوں کو سیاست کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بیشتر اس میں کماتے نہیں بلکہ گنواتے ہی ہیں، وقت، پیسہ اور عزت تک۔ میں نے دیہی علاقوں میں محض ٹور ٹپے کے لئے سیاست کرنے والوں کو اپنے باپ دادا کی زمینیں تک بیچتے ہوئے دیکھا ہے خاص طو رپر جب الیکشن آ جاتا ہے۔ ایم پی اے تو کوئی ایک بنتا ہے مگر ساتھ میں بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جو محض رکن اسمبلی کہلانے کے شوق میں کروڑوں روپے اجاڑ دیتے ہیں۔ ان کا حوصلہ ہے جو بار بار الیکشن لڑتے ہیں اور بار بار ہارتے ہیں۔

سیاست کے دھندے کا اگر دوسرے دھندوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مجھے جو بات سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے وہ سیاستدان کا ٹکا ٹوکری ہونا ہے۔ لوگ منہ پر تو عزت کرتے ہیں، میاں صاحب، خانصاحب اور چوہدری صاحب سمیت نجانے کیا کیا کہتے ہیں مگر پیٹھ پیچھے وہ کچھ کرتے ہیں کہ جو کوئی برداشت ہی نہ کرسکے۔ سوشل میڈیا پر ہی دیکھ لیجئے۔ سیاستدان کو چور کہنے سمیت کوئی بھی گالی دینا کتنا آسان ہے۔ جسے گھر والے روٹی سالن دے کر راضی نہ ہوں وہ بھی سوشل میڈیا پر دانشور ہوتا ہے، انقلابی ہوتا ہے۔ آپ ملک کے وزیر اعظم کو چور کہہ سکتے ہیں لیکن آپ اپنے علاقے کے ایس ایچ کو ذرا چور کہہ کے دکھائیں، جی ہاں، جج، جرنیل، بیوروکریٹ، وکیل، صحافی اور مولانا ہونے والے دھندے ٹھیک ہیں، انہیں پبلک پرسیپشن کی کوئی پروا نہیں۔ انہوں نے کون سا کسی سے ووٹ لینا ہے۔ یہ جب چاہیں ایک معروف مولوی صاحب کی طرح اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کے انتہائی مغرورانہ انداز میں غریب عوام سے ہاتھ ملانے کی بجائے انہیں پرے پرے کر سکتے ہیں اور شیشہ چڑھا سکتے ہیں مگر کیا کوئی سیاستدان ایسا کر سکتا ہے۔ ایک بار ایسی ویڈیو آ جائے تو بچارا وضاحتیں دیتا ہی پھرے گا کہ وہ تو عوام کی اپنے اماں ابا سے زیادہ عزت کرتا ہے، ہائے، جگہ جگہ شادیوں پر اچھی خاصی سلامیاں دینا الگ مصیبت اور کسی مشہور ووٹر، سپورٹر کا کوئی چاچا، ماما بھی مرجائے تو جنازہ پڑھنے کے لیے جانا پڑتا ہے، اگر جنازہ مس ہو جائے تو پُرسہ دئیے بغیر بات نہیں بنتی، پھر اسی میں سے خاندان اور کاروبار  کے لئے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے۔

آپ جج ہیں تو کوئی آپ کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا، آپ مائی لارڈ مائی لارڈ کی صدائیں سنتے ہیں چاہے آپ انصاف کا قتل ہی کیوں نہ کر رہے ہوں آپ کے خلاف احتجاج نہیں ہو سکتا۔ آپ بیوروکریٹ ہیں تو آپ میٹنگ کے نام پر کمرہ بند کے گپیں لگا سکتے ہیں اور خواتین کے ساتھ بھی لگا سکتے ہیں۔ جب دفتر کا وقت ختم ہو جائے تو آپ گولف کھیلنے بھی جا سکتے ہیں اور کسی کلب میں لمبے لمبے سوٹے لگا تے ملکی حالات پر آہیں بھی بھر سکتے ہیں، وہ تمام حالات جن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ صحافی ہیں یا وکیل، آپ کسی کی بات کیوں سنیں گے لیکن سیاستدان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھی بری باتیں سنے، جائز ناجائز سفارشیں کرے۔ مجھے اچھرہ لاہور کے ماضی کے مشہور اور مقبول ایم این اے میاں محمد منیر سے اپنی ہونے والی ایک گفتگو یاد آ گئی۔ کوئی رات دس بجے میں نے ان سے فون پر پوچھا کہ کل آپ سے ملاقات کرنی ہے، کب ہو سکتی ہے، جواب ملا کہ میں اس وقت بھی اپنے لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا ہوں، ابھی آجائیں یا صبح سات بجے میں اپنے دفتر میں لوگوں کے مسائل سنتا اور فون کرتا ہوں کیونکہ اس کے بعد اپنے کام پر جانا ہوتا ہے، صبح آجائیے گا۔ سیاستدانوں کو ہر ماجھے گامے کی بات سننی ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا توعوامی مقبولیت کھو بیٹھے گا۔ یہ کام تو آجکل کے مولوی بھی نہیں کرتے، وہی مولوی صاحب جن کا اوپر ذکر کیا، میں ان سے ملنے کے لئے گیا تو وہ اپنی چارپائی پر لیٹے رہے، آنکھیں بند کر کے ہوں ہاں کرتے رہے، مجال ہے انہوں نے کوئی اہمیت دی ہو بلکہ میرے ساتھ گئے ہوئے اپنے ایک فین کی اچھی خاصی بے عزتی کردی حالانکہ اس کے ابا جان معروف کاروباری آدمی اور مولوی صاحب کے ٹھیک ٹھاک ماننے اور چاہنے والے تھے۔ ان سب کو چھوڑئیے، میں نے صحافیوں کی سیاست کی۔ جب میں الیکشن لڑ رہا تھا تو میرے پاس میرے شہر کے پروفیشن کا مشہور زمانہ پہاڑی گروپ آیا جو میرے صحافتی سیاسی گروپ سے ہی تعلق رکھتا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر ان پر کوئی مقدمہ ہوجائے تو میں انہیں چھڑوا سکوں گا تو میرا جواب تھا اگر وہ بے گناہ ہوئے تو ہر جگہ آواز بلند کروں گا لیکن اگر کوئی جرم یا زیادتی کرکے تھانے پہنچے تو پھر میری طرف سے جواب ہے، اس جواب نے انہیں بدمزہ کیا مگر انتہا تو اس وقت ہوئی جب انہوں نے پوچھا کہ اگر وہ مری میں ہوں اور وہاں انہیں شراب کی ضرورت ہو تو میں انہیں وہاں پہنچا سکتا ہوں، میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شراب تو میں نے خود کبھی چکھی تک نہیں، آپ مری کی بات کرتے ہیں آپ مجھے یہاں لاہور پریس کلب میں کہیں تو وہاں بھی نہیں دے سکتا۔ اس پر انہوں نے اعلان کیا کہ دونوں گروپوں سے تعلق رکھنے والے پہاڑی گروپ کے کسی ایک ووٹ کی بھی میں امید نہ رکھوں۔انہوں نے بتایا کہ ان کے کوئی چار سو کے قریب پکے ووٹ ہیں۔ سچ ہے کہ سیاست بہت مشکل کام ہے،اس میں اپنے سے اوپر والے کے بھی جوتے چاٹنے پڑتے ہیں اورنیچے والوں کی بھی پوچا پوچی رکھنی پڑتی ہے۔ سیاستدان ہمہ جہت ہوتا ہے، اسے محنتی، ڈھیٹ، چرب زبان اور موقع شناس سمیت بہت کچھ ہونا چاہئے۔

مجھے سیاست کے دھندے کے مشکل ہونے کا خیال اس وقت آیا جب ایک مرتبہ پھر الیکشن ہونے والے ہیں۔ اب بہت ساروں کے بدنوں میں ملک وقوم کا درد جاگے گا لیکن اب سیاست بھی کروڑ پتیوں سے آگے کا کھیل ہوچکا ہے کہ الیکشن میں کروڑ پتی کیا بیچتے ہیں، اب ارب، کھرب پتی ہونا ضروری ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ کئی ایسے ہوں گے جو پچاس، ساٹھ کروڑ لگا کے ایک، ڈیڑھ ارب نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے مگر بہرحال بہت سارے ایسے ہیں جو اپنا کما کے لگاتے ہیں، سو یہ تودھندے کا اصول ہے کہ بڑا رسک ہو تو بڑا منافع بھی ہوتا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ زندگی کو انجوائے کرنا چاہتے ہوتو ارب پتی ہوجاو مگر مشہور مت ہونا لیکن اگر آپ کے دماغ میں سیاست کا خناس سما ہی گیا تو آپ بھی آزما کے دیکھ لیں، بہت بُرا چسکا ہے۔

تبصرے بند ہیں.