کوئی صحافی، کالم نویس یا تجریہ نگار اگر کسی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما سے متاثر ہے اور اس کے حق میں بات کرتا ہے تو اسے اس کا جمہوری حق سمجھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اتفاق ہے ایک ہی اشاعتی ادارے سے تعلق رکھنے والے چار کالم نویس ایک تسلسل کے ساتھ عمران اور پی ٹی آئی کے حق میں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عمران پر تمام الزامات کو بھولی داستان جان کر ایک صاف دامن کردار کے حامل سیاستدان کی حیثیت سے سیاسی عمل کا حصہ بننے دیا جائے۔ اس کیلئے مٹی پاؤ کی پالیسی اختیار کر لی جاے تو یہ ان کا اظہار رائے کا جمہوری حق ہے اسی طرح ان کے نکتہ نظر سے اختلاف کو جمہوری رویہ کا ہی نام دیا جانا چاہیے۔ ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے جن کی اصل شہرت کالم نویس کی ہے، متذکرہ نکتہ نظر سے اختلاف کیا۔ سہیل وڑائچ نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا۔ اب عرفان صدیقی کا جواب الجواب کیا ہو گا۔ دونوں اک دوسرے سے معاملہ طے کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ لہٰذا وہ جانیں اور ان کا کام۔ البتہ سہیل وڑائچ نے عمران کے حق میں چند مثالوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے اس پر بات ہو سکتی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل اقتبال، 9 مئی کھلاڑیوں کی بہت بڑی غلطی سہی، مگر کیا کسی سیاسی جماعت نے اس سے پہلے کوئی غلطی نہیں کی۔جیالوں نے پی آئی اے کا جہاز اغوا کر کے غلطی نہیں کی تھی۔ نونیوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے غلطی نہیں کی تھی۔ کھلاڑی نے جنرل باجوہ کو میر جعفر کہا تھا تو کیا نون خان نے بھی گوجرانوالہ جلسے میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے نام نہیں لئے تھے۔ جیالے زرداری نے بھی تو اسلام آباد میں جنرل راحیل شریف کو کھلم کھلا انتباہ کیا تھا۔
ایک کہاوت کچھ یوں ہے ایک شخص نے دوسرے پر الزام عائد کیا کہ تونے فراڈ کیا ہے دوسرے نے جواب دیا تیری بہن بھی تو اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی تھی۔ پہلے نے کہا تیرے فراڈ سے اس بات کا کیا تعلق نکلتا ہے دوسرے نے جواب دیا کہ پھر بات سے بات تو نکلتی ہے نا۔ سہیل وڑائچ نے بھی بات سے بات نکالی ہے۔ جیالوں نے جہاز اغوا کیا تو ٹیپو سمیت تمام اغوا کاروں نے سزا پائی۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تو ن لیگ کے تین رہنماؤں میاں، اختر رسول اور طارق عزیز نے کئی ماہ کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگتی تھی۔ نون خان (نواز شریف) نے جنرل باوجوہ کو میر جعفر قرار دے کر غدار ثابت نہیں کیا بلکہ سیاست میں غیر ضروری مداخلت کا ذمہ دار قرار دیا تھا جو بعد میں حالات نے سچ ثابت کر دیا اور یہ بھی سچ ہے پیپلز پارٹی یا ن لیگ کے حامی کسی کالم نگار نے مٹی پاؤ مہم نہیں چلائی تھی۔
سہیل وڑائچ نے کالم کا اختتام دھمکی آمیز انتباہ سے کیا ہے، یہ نہیں ہو سکتا، نونی جیل میں جائیں تو وہ ہیرو اور اگر انصافی جیل میں جائیں تو وہ زیرو، ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہونے چاہیں۔ یہ کہنا کہ میرا کتا ٹامی اور تمہارا کتا، کتا ہے، یہ نہ انصاف ہوگا نہ جمہوریت، اور یاد رکھیں کہ اگر لڑنے سے نہ رکے تو پھر آپ کا مقدر بھی مرنا ہوگا۔ انصافیوں کو تو نہ مار سکو گے کل نونیوں کی باری بھی ضرور آئے گی۔
سہیل وڑائچ نے اگرچہ انصاف کی دہائی دی ہے مگر خود انصاف نہیں کیا۔ ان کے بقول نونیوں کو جن الزامات کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا تھا ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہوا۔ دوسرے وہ جس طرح جیلوں میں جانے سے پہلے ن لیگی تھے جیلوں سے باہر آکر بھی ویسے ہی ن لیگی رہے۔ اس کے برعکس انصافی جتنے جیل گئے واپس آئے تو انصافی نہیں رہے بلکہ استحکامی بن گئے۔ ترازو کا پلڑا تو تب عدم توازن کا شکار ہوتا اگران میں سے بڑی اکثریت کو اسی طرح ن لیگ میں شامل کرایا جاتا جس طرح پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا تھا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کبھی ایک لمحے کے لئے بھی ن لیگ سے وابستہ نہیں رہے بلکہ نہ کبھی پی پی یا جے یو آئی کی طرح اتحادی رہے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف سے نکل کر استحکام پارٹی بنائی اور ان کے تحریک انصاف میں ساتھی رہنے والے ان کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ یعنی اپنے اپنوں کے پاس جا رہے ہیں۔ بلکہ الٹا پنجاب میں ن لیگ کیلئے سیاسی چیلنج بن رہے ہیں۔ اس پر ن لیگ کو مطعون کیا جائے تو اسے انصاف کی نئی تعبیر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کے تمام جرائم کو اس لئے جرائم نہ سمجھا جائے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے یہ بھی انصاف کی نئی تعریف ہی ہو سکتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کیا توشہ خانہ کیس غلط ہے۔ کیا سعودی نائب حکمران محمد بن سلمان کی تحفہ میں دی گئی گھڑی اور دیگ اشیاء دبئی میں ظہورنامی شخص کو فرح گوگی کے ذریعے فروخت نہیں کی گئیں۔ کیا عمران خان کا یہ بیان آن ریکارڈ نہیں ہے کہ تحائف بیچ کر بنی گالہ کی روڈ بنوائی گئی تھی اور اس کے جواب میں سی ڈی اے کی وضاحت بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے کہ عمران کی فرمائش پر تب وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر یہ سڑک سی ڈی اے نے تعمیر کرائی تھی۔ کیا برطانیہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو ملنے والے 90 ہزار پونڈ خزانہ میں جمع کرانے کی بجائے جسٹس ثاقب نثار کی ملی بھگت سے ملک ریاض کو نہیں دیئے گئے۔ کیا بشریٰ بی بی کو پانچ قراط ہیرے کی انگوٹھی کے بدلے پشاور میں بحریہ ٹاؤن کے سیل شدہ آفس کو نہیں کھولا گیا۔ یا 90 ہزار پونڈ رقم کے عوض القادر ٹرسٹ کے نام پر کئی ایکڑ اراضی اور اس پر تعمیر کیلئے کثیر رقم ملک ریاض سے نہیں لی گئی۔ فارن فنڈنگ، سائفر سمیت اور کتنے کیسز ہیں۔
فرانس میں حکمران پارٹی کے وابستگان، ا سکے حامی وکلاء اور صحافی،’کالم نگار‘کیا بے انصافیوں کے مرتکب نہیں ہوئے جب انہوں نے وزیر اعظم سرکوزی پر آبدوزوں کی فروخت میں کرپشن کے الزام کو کردار کشی، زیادتی اور انتقامی کارروائی قرار دے کر ملک بھر میں ہنگامہ آرائی نہیں کی۔ نہ کوئی سڑک پر آیا نہ عدالتوں پرہلہ بولا بلکہ سرکوزی کو کہا گیا عدالت سے خود کو بے گناہ قرار دلواؤ تو ہمارے لیڈر ورنہ چھٹی۔ اسی طرح جب بل کلنٹن پر جنسی الزام لگا، جب نکسن پر واٹر گیٹ سکینڈل کا الزام لگا۔ حتیٰ کہ بھارت جیسے ملک میں جب وزیر اعظم نرسیماراؤ پر کاروں کے سکینڈل کا الزام لگا ان میں سے کسی کی جماعت کے کارکنوں یا حامی کالم نگاروں نے سڑکوں اور میڈیاپر ان کے حق میں مہم نہیں چلائی۔ صدر نکسن اور نرسیماراؤ کو باقاعدہ سزا ملی۔ کلنٹن کو ہر امریکی کی طرح مجھے بھی جنسی آزادی حاصل ہے، کے موقف اوربیوی ہیلری کی جانب سے مجھے کوئی اعتراض نہیں، کے بیان پر گلوخلاصی ہوسکی تھی۔ میں سمجھتا ہوں یہ دراصل جمہوری غیرت کا تقاضا ہے کہ جرائم یا الزامات میں لتھڑا ہوا شخص ہمارا قائد کیوں ہو، یورپ میں یا امریکہ، کینیڈا وغیر ہ میں عام شہری کا بڑے سے بڑا اخلاقی جرم قابل معافی ہو سکتا ہے مگر سیاسی قائد، صدر، وزیر اعظم پر معمولی الزام بھی خواہ وہ پہاڑ کے مقابلے میں رائی جتنا حقیر ہی کیوں نہ ہوا، قابل معافی نہیں ہوتا۔ سچ یہ ہے ابھی ہم جمہوری پختگی سے بہت دور ہیں۔
بہتر ہوتا سہیل وڑائچ کے نام کے بغیر بات کی جاتی مگر اس سے ذہنی الجھاؤ پیدا ہو سکتا تھا کہ کس نے کیا بات کی ہے۔ بہرحال یہ جو دو کالم نگاروں کے مابین کالماتی جوڑ پڑا ہے اس سے قارئین ضرور محظوظ ہوں گے۔ ویسے ان دونوں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا، دخل در معقولات کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے معذرت، تاہم ان دونوں کا قاری ہونے کے ناطے میرے لئے بھی اظہار رائے کی کچھ گنجائش ضرور ہے اور مندرجہ بالا معروضات کی گنجائش اسی گنجائش نے پیدا کی ہے۔
تبصرے بند ہیں.