9 نومبر کو یومِ اقبالؒ تھا۔ اُس دن پورے پاکستان میں عام تعطیل تھی۔ اِسی دن کی مناسبت سے ادبی پروگرام منعقد ہوئے اور اقبالؒ کے فکروفن پر مقالے پڑھے اور لکھے گئے۔ اب اگلے سال 9 نومبر تک ہم اقبالؒ کو بھولے رہیں گے اور فکرِ اقبال کو بھی۔ شاید اِسی لیے شاعرِمشرق نے کہا
اقبال اپنا محرم کوئی نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
سوال یہ ہے کہ کیا نسلِ نَو اُس ”دردِنہاں“ سے آگاہ ہے؟۔ کیا نونہالانِ وطن کو اُس درد سے بیداری سے آگاہ کیا گیا جو فکرِ اقبال کی روح ہے؟۔ کیا اقبالؒ کا درسِ خودی یہی تھا کہ ہم کشکولِ گدائی تھامے دَردبدر۔ اقبالؒ نے تو کہاتھا کہ ”خودی کا سرِ نہاں لا الہ اللہ“ تو کیا ہم نے وطنِ عزیز کی بنیادیں اِسی پر اُٹھائیں؟۔ کیا سیاست سے ثقافت تک ہمیں کہیں بھی اقبالؒ کے درسِ خودی کا شائبہ تک نظر آتاہے؟۔ اقبالؒ ہمارے قومی شاعر اور بانیئ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناحؒ جنہوں نے زمین کا یہ ٹکڑا اسلام کی تجربہ گاہ کے طَور پر حاصل کیا۔ کیا دھرتی ماں پر گزشتہ ساڑھے 7 عشروں میں دینِ مبیں کی عملداری ہے؟۔ آئینِ پاکستان میں تو درج کردیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل 7 سالوں میں تمام قوانین کو دینی قالب میں ڈھالے گی تو کیا ایسا ہوا بھی؟۔
آئیے اب آپ کو پاکستان کی سیر کرواتے ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں ہم دہشت گردی کے ہاتھوں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوا چکے۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں ڈاکے پڑتے ہیں، خواتین سے سرِعام پرس چھیننے کی وارداتیں ہوتی ہیں اور بھتہ خوری کی پرچیاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں جنسی ہراسانی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے اورہرروز ریپ کے بعد قتل کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ یہ وہ دھرتی ماں ہے جس کو اُس کے اشرافیہ نامی بیٹوں نے ایسے نوچا جیسے مردارکو گِدھ۔ اِس کے بزعمِ خویش رَہنماؤں کا یہ عالم کہ (ابراہیم ذوق سے معذرت کے ساتھ)
کم ہوں گے اِس بساط پر اِن جیسے بَدقمار
جو چال بھی چلے یہ نہایت بُری چلے
اب سوال یہ ہے کہ کیااِن رَہنماؤں کی نیتوں میں فتور ہے یا عقلِ سلیم کی کمی کیونکہ ہمارا ترقی کا سفر ہمیشہ معکوس ہی رہا۔ فیلڈ مارشل ایوب سے جنرل مشرف تک تو ویسے ہی مارشل لاؤں کے ڈیرے رہے اور غیرآئینی حکومتوں کودوام بخشنے کے لیے عدل کے اونچے ایوانوں سے جسٹس منیر جیسے عادل
بھی پیدا ہوتے رہے۔ صرف عادلوں ہی کا کیا رونا یہاں تو آمروں کو 10 بار وردی میں منتخب کروانے کے دعویدار بھی ہیں۔ استثنائی صورتیں بہرحال موجود جیسے ذوالفقارعلی بھٹو، میاں نوازشریف اور محترمہ بینظیر بھٹو۔ذوالفقارعلی بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں تختہئ دار نصیب ہوا، بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا اور میاں نوازشریف کو جلاوطنی کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ اِس امر کا اقرار تو اُن کے بدترین دشمن بھی کرتے ہیں کہ جب پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا تھاتو میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تاحیات نااہل کردیا۔ یہ فیصلہ تاریخِ عدل کا سیاہ باب ہے جسے فراموش کرنا ناممکن۔ بلاشبہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان، میاں ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور جسٹس گلزاراحمد اِس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ جرم سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی جنرل فیض حمید کی ایماء پرکیا گیا کیونکہ میاں نوازشریف کو ”مائنس“ کرکے عمران خاں کی راہ ہموار کرنا مقصود تھا۔ یوں تو عمران خاں کی نااہلی کے مصدقہ ثبوت موجود تھے لیکن اُنہیں صادق وامین قرار دے کر جہانگیرترین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
عدل کے اونچے ایوانوں کی حالت یہ کہ معیارِعدل میں پاکستان آخری نمبروں پر اِس کے باوجود اگر تاریخِ عدل کا کوئی بدترین دَور گزراہے تووہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کاہے۔ اُس دَور میں ہرسیاسی فیصلے کے لیے ہم خیال ججزکے بنچ بنتے رہے اور آئین کو مقفل کرکے مَن مرضی کے فیصلے جاری ہوتے رہے۔ اُنہی ہم خیال ججز میں سے ایک جسٹس مظاہرعلی نقوی ہیں جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواستیں دائر کی گئیں لیکن بندیال صاحب اُنہیں دباکر بیٹھ رہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تعیناتی ٹھنڈی ہواکا جھونکا ثابت ہوئی اور سائلین کا عدل سے اُٹھتا اعتماد ایک دفعہ پھر بحال ہونے لگا۔ پاکستان کی تاریخِ عدل میں پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کی لائیو کوریج ہوئی جسے کُل عالم نے دیکھا۔ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اِسی ایکٹ کے خلاف اُس وقت حکمِ امتناعی جاری کیاجب یہ بِل ابھی پاس بھی نہیں ہواتھا۔ اِس حکمِ امتناعی کے خلاف باربار فُل کورٹ کی استدعا کی گئی جسے مسترد کیاجاتا رہا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں قائم فُل کورٹ نے حکمِ امتناعی مسترد کرتے ہوئے یہ آرڈیننس بحال کردیا۔
27 اکتوبر کے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں مظاہرعلی نقوی کو اظہارِوجوہ کا نوٹس جاری کیاگیا جس میں اُنہیں 10 نومبر تک جواب جمع کروانے کا کہا گیا لیکن نقوی صاحب نے نوٹس کا جواب دینے کی بجائے 10 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل پرہی اعتراض اُٹھا دیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ارکان کے بارے میں کہا کہ وہ جانبدار ہیں اِس لیے اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس مظاہرنقوی نے کہاکہ اُن کے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اُن کی سپریم کورٹ میں تعیناتی سمیت متعدد فیصلوں کی مخالفت کی۔ اُنہوں نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردارطارق نے اُن کے خلاف کارروائی کے لیے سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کو خط لکھا تھا۔ جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیولیکس انکوائری کمیشن کاحصہ ہیں۔ اِس لیے انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس سردارطارق اور جسٹس نعیم اخترافغان کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مظاہرعلی نقوی کے اُٹھائے گئے اعتراضات پر رائے تو قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن یہ طے کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں قائم ہونے والے بنچز کے ارکان پر بھی اعتراض اُٹھائے جاتے رہے۔ اُن اعتراضات کو بندیال صاحب نے پرکاہ برابر حیثیت نہیں دی۔ یہی نہیں بلکہ 30 مارچ 2023ء کو انتخابات التواکیس کی کارروائی کے دوران چیف جسٹس بندیال صاحب نے فرمایا”جسٹس مظاہرنقوی کو بنچ میں شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دیناتھا“۔ کورٹس کے فیصلوں پر اعتراضات اُٹھائے جاتے رہے اور اُٹھائے جاتے رہیں گے لیکن کسی بھی دَورمیں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں ایسی تقسیم نظرنہیں آئی جیسی عمرعطا بندیال نے پیدا کی۔ یہی واضح تقسیم ہمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر بِل کی کارروائی کے دوران نظر آئی اور یہی تقسیم مظاہرعلی نقوی کے جواب میں نظر آتی ہے جو میزانِ عدل کے لیے سمِ قاتل ہے۔حرفِ آخر یہ کہ جہاں حکومت کے سیاست سے عدالت تک تمام ستون ہی لرزہ بَراندام ہوں وہاں بھلائی کی توقع عبث۔
تبصرے بند ہیں.