انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی ہر سیاسی جماعت اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے یہاں تک کہ وزارت عظمیٰ سے لے کر وزراء تک کی نامزدگیاں کی جا رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کی حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے زیادہ تر لوگ سخت نالاں ہیں۔ پی ٹی آئی سے دلچسپی بھی ان ہی کی وجہ سے ہے وگرنہ پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے دوران مہنگائی بھی کی اقربا پروری بھی کی احباب دوست نے بھی خوب موجیں کیں جتنے بھی لوگ آج اس سے علیحدہ ہوئے انہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہی وجہ تھی کہ اس وقت اس کے عہدیداران اور کارکنان بے حد مایوس دکھائی دینے لگے تھے ان کا کہنا تھا کہ آئندہ بلدیاتی و عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے بہت کم امیدوار کھڑے ہوں گے جو ہوں گے ان میں انتہائی کم کامیاب ہوں گے مگر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا پی ٹی آئی کو تین چار بڑی اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے مل کر چلتا کیا بس یہیں سے اس کی مقبولیت کا گراف اوپر جانا شروع ہو گیا لوگوں کی اکثریت نے جوڑ توڑ کے اس اقدام کو ناپسند کیا اور پھر صورت حال یکایک بدل گئی اب تک پی ٹی آئی تمام سیاسی جماعتوں سے آگے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن بھی ملک کی بڑی جماعت ہے عین ممکن ہے چند ماہ کے بعد جب مہنگائی کے عفریت کو قابو کر لیا جائے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو جائے مگر یہ بھی پیش نظر رہے کہ اب لوگ سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں ان کے نزدیک یہی کافی نہیں کہ مہنگائی کم ہو جائے پورے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا لگ یہ رہا ہے کہ اب عوام صرف پیٹ بھرنے پر ہی اکتفا نہیں کریں گے یہ جان کر کہ وہ بھی اقتدار کے ایوانوں میں جا سکتے ہیں مضطرب دکھائی دیتے ہیں لہٰذا یہ جو کامیابیوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور وزارتوں کی از خود تقسیم و نامزدگیاں ہو رہی ہیں اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ذرا دیکھیے کہ اب مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم بننے کا اعلان کر دیا ہے ان کی یہ خواہش تو ہو سکتی ہے مگر اس کا پورا ہونا کافی مشکل ہے البتہ ناممکن نہیں کیونکہ ہمارے ہاں کی سیاست تو کوئی سیاست نہیں رہی یہ تو ایک بازی گری ہے جو اس میں مشاق ہوتا ہے۔ وہ کامیاب ہو جاتا ہے لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ وہ وزیراعظم نہ بن سکیں ویسے اصولی طور سے اب ان کی باری ہے چاہے وہ ایک برس کے لیے ہی کیوں نہ ہو؟
بہرحال آئندہ آنے والے عام انتخابات میں اگر وہ صاف و شفاف ہوتے ہیں تو نتائج مختلف ہوں گے مگر ہم اپنے سوالات پھر دہراتے ہیں کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ کون کیا پروگرام رکھتا ہے۔ وہ قرضے جو ایک عذاب بن چکے ہیں ان سے کیسے نجات حاصل کی جائے گی؟ ہمیں تو ابھی تک ایک دھند سی ہی دکھائی دیتی ہے جوسیاسی ماحول پر چھائی ہوئی ہے جس میں ہر جماعت ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کسی کے پاس کچھ نہیں دینے کو ہاں البتہ سمیٹنے کو بہت کچھ ہے۔ اس وقت اگرچہ نگران حکومت ہے جو قانون سازی کر سکتی ہے نہ نئے منصوبے بنا سکتی ہے مگر وہ سب کچھ کر رہی ہے قوانین بھی بنا رہی ہے اور تعمیراتی و غیر تعمیراتی منصوبوں کا بھی اجرا کر رہی ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ طویل المدتی پڑاؤ ڈالنا چاہتی ہے اگر ہمارے ”جمہوریت پسند“ دوست برا نہ منائیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں اور اس کے مزے خوب لوٹ چکی ہیں مگر عوام کو جو ریلیف دینا چاہیے تھا وہ نہیں دے سکیں تو ان کے اقتدار میں آنے کا کیا فائدہ؟ یہی موجودہ سیٹ اپ ہی کچھ برس کے لیے چلے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو پچھلا سیٹ اپ کرتا رہا ہے اس نے بھی آئے روز اشیائے ضروریہ، بجلی، گیس اور پانی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ رکھا تھا۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط پر عمل کرنا ایک اعزاز قرار دیا ہوا تھا موجودہ نگران سیٹ اپ بھی وہی کچھ کر رہا جو اس سے پچھلا سیٹ اپ کرتا رہا ہے عرض کرنے کا مقصد انتخابات نے عوام کو پہلے بھی غمگین و اداس کیا آئندہ بھی ویسا ہی ہو گا کہ جو بھی اقتدار میں آتا آمرانہ طرز عمل اختیار کرتا۔
”مل“ نے اس ”جمہوری نظام“ کے حوالے سے کہا ہے کہ عام طور سے اس میں صرف چیدہ افراد کی مرضی کے مطابق نظام چلتا ہے اور عوام کی اکثریت سوچے سمجھے بغیر ان کی پیروی کرتی ہے اس لیے اکثریت کی حکومت چند سربراہوں کی حکومت میں تبدیل ہو جاتی ہے اسمبلیوں میں منتخب نمائندے اپنے سیاسی رہنماؤں سے اختلاف کی جرأت نہیں کر سکتے چاہے وہ ذاتی طور سے ان سے متفق نہ ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت بندی کے سخت اصولوں کو توڑنے کے جرم میں ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ یوں جمہوریت کچھ لوگوں کی آمریت بن کر رہ جاتی ہے۔ اکثریت‘ جماعتی مفادات کے پیش نظر اقلیت کی رائے کو ٹھکرا دیتی ہے چاہے وہ قومی مفادات کے حق میں کیوں نہ ہوں“۔
”مل“ کے خیالات کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں پارٹی سربراہوں کے گرد جمع نظر آتی ہیں وہ سیاہ کریں سفید کریں فیصلے جیسے بھی ہوں دوسرے نمائندوں کو تسلیم کرنا پڑتے ہیں یہی وجہ ہے ایک صحت مند جمہوری کلچر فروغ نہیں پا سکا اور سب جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف رہیں جس کے نتیجے میں ہمیں اندھیرے میں سفر جاری رکھنا پڑا۔ عوام کی حالت ٹھیک ہو سکی نہ کوئی انقلابی تبدیلی آسکی۔ سیاستدان اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں رہے اور اپنی ذاتی الجھنوں میں الجھے رہے الجھتے الجھتے چھہتر برس بیت گئے عوام روتے پیٹتے رہے اب جب انہیں ایک بار پھر انتخابات کی راہ پر ڈالا جا رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں زندگی ہی سے بیزار کر دیا وہ جینے کی خواہش کریں تو کس طرح‘ انہیں کسی سے بھی یہ امید نہیں رہی کہ وہ آئے گا تو ان کے جیون میں آسائشوں اور آسانیوں کی پھوار پڑنے لگے گی شبنم کے قطرے ان کی ہر آس کے پھول کی پنکھڑی پر جھلملانے لگیں گے ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ ہاں اگر ہمارے سربراہان و سیاستدان بیک آواز ہو کر کہتے ہیں کہ ماضی میں جو ہو گیا سو ہو گیا۔ آئندہ ویسا نہیں ہوگا اس کے یقین کے لیے وہ خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں اور وہ دولت جو ان کے پا س ہے اس کا ایک حصہ جسے عوام شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں قومی خزانے میں ڈال دیں تو پھر واقعی گلوں میں رنگ بھر سکتے ہیں پھر کسی کو وزارت عظمیٰ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی کیونکہ عوامی خدمت کے لیے اسے دن رات کام کرنا پڑے گا اپنا پسینہ بہانا ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.