فلسطینی لڑکی کا مکتوب

72

مجھے نہیں معلوم آپ اس وقت کس سر گرمی میں مصروف ہوں گے،اپنے بچوں کے ساتھ کسی کیفے یا ریسٹورنٹ میں کھانے سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے، کسی میوزیکل کنسرٹ میں شریک ہوں گے، یا کسی پارک میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں شامل ہوں گے،یہ بھی ممکن کسی شادی کی تقریب میں مہمان بنے بیٹھے ہوں،اس لئے کہ آپ آزاد ریاست کے شہری ہیں، آپ کو اختیار ہے کہ آپ اپنی مرضی کے پروگرام مرتب کریں،آپ کو کسی سے پروانہ لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی، آپ کے بچوں پر بھی کوئی قدغن نہیں ہے، وہ اپنے سکول،کالج، جامعہ جانے میں آزاد ہیں، انھیں کسی کا بھی خوف اور ڈر نہیں ہے، وہ مارکیٹ، بازار جا سکتے ہیں،انھیں کسی رشتہ دار، عزیز کے گھر جانا ہو،اپنی دوست سے ملنے کی تمنا ہوان کا راستہ روکنے کی جراٗت کوئی نہیں کرتاوہ آزادی کی فضا میں سانس لیتے ہیں، آرام کی نیند سوتے ہیں، اپنی مرضی سے جاگتے ہیں،آپ کو مذہبی عقائد کے مطابق اپنی عبادت گاہ میں نماز ادا کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہمارا مذہب، عقیدہ ایک ہے ہمارے خون کے رنگ میں بھی کوئی فرق نہیں، ہم بھی اچھی شکل و وجاہت رکھتے ہیں، ہم جس ریاست کے باسی ہیں اسکی اکثریت مسلم ہے مگر ہم روز جیتے اور مرتے ہیں،غالب آبادی کی زندگی سنگینوں کے سائے میں گزر رہی ہے، آپ نے میڈیا کی آنکھ سے یہ دلخراش منظر تو ضرور دیکھا ہو گا، قابض فوج کا سپاہی بندوق کی نوک پر جب کسی کے جواں سال بیٹے کو پکڑ کر ماں کے سامنے گھسیٹے لے جاتا ہے تو متاثرین کا دل خون کے آنسو روتا ہے، ماں آہ و بکاہ کرتی ہے، اپنی استطاعت کے مطابق وہ ظالم اور جابر پر پتھروں کی بارش کرتی ہے، اس بے بسی میں وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آپ نے یہ منظر بھی دیکھا ہو گا کہ جواں بیٹی اور بچوں کے سامنے سکیورٹی کے نام پر صہیونی فوج کا سپاہی کس طرح ذلت آمیز انداز میں سرحد پر والدین سے پیش آتا ہے۔ہم اپنی مرضی سے جاگ
سکتے ہیں نہ ہی سو سکتے ہیں،ہروقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب قابض فوجی در پر دستک دے اور تلاشی کے بہانے گھر کے سربراہ کو پکڑ کر لے جائے،اپنی ہی سرزمین پر ہم اجنبیوں کی طرح رہ رہے ہیں،روزگار کے لئے گھر سے نکلیں، ہسپتال جانا مقصود ہو،روزمرہ کی اشیاء کی خریداری درکار ہو تو بلا امتیاز رنگ ونسل،جنس ہمیں تلاشی کے کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، کئی دہایؤں سے اٹھانے جانے کے کرب ناک مناظر نے ہماری نسل نو کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ عوامی تائید کے بغیر عالمی طاقتوں کے ہمارے بڑوں سے معاہدے اب گلے کی ہڈی بن گئے ہیں، یہ منظر کشی زمانہ امن سمجھے جانے والے عہد کی ہے، لیکن اس وقت پورے غزہ میں قیامت کا سماں ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی حماقت کی ہے،کاش! وہ ہماری جگہ ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ ہماری حیاتی کیسے خوف کی فضا میں بنکرز،سرنگوں میں گذررہی ہے،قابض ریاست کے حواری کبھی پانی بند کر دیتے ہیں، کبھی بجلی،گیس اور انٹرنیٹ،بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے ہمیں ان کے رحم وکرم پر رہنا پڑتا ہے۔ آپ اس مریض کے لواحقین کے جذبات سمجھ سکتے ہیں کہ جسکی جان لبوں پر ہو اور سکیورٹی فورسز والے تلاشی کے بہانے اتنی تاخیر کر دیں کہ بیچارہ ایمبولینس ہی میں دم توڑ دے، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا، جب غزہ میں کسی کی شہادت نہ ہو، جیلوں میں بے گناہ نوجوانوں کا غم اس کے علاوہ ہے،حماس نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کے طور پر انتہائی قدم اُٹھایا ہے۔ کس قدر شرمناک ہے کہ عرب ممالک جنکی جنگ اہل غزہ لڑ رہے ہیں،وہ صہیونی ریاست سے ایسے معاہدے کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ہی خلاف ہیں۔اپنی عیاشیوں میں گم مسلم حکمران ایسی سفارتی کاوشوں سے ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں،میرے ہم عمر اپنے والدین سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جن پر ہم تکیہ کئے بیٹھے ہیں وہی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں، اس کے بعد یہ سوال کیسے بنتا ہے کہ اسرائیل پر راکٹ کیوں داغے گئے؟ قیامت کا منظر میرے سامنے تھا، شیر خوار بچی کو لبوں پر ہونٹ پھیرتے دیکھا ہے کہ جس کے ماں باپ اسرائیلی حملوں میں زندگی ہار چکے تھے، ایسے سیکڑوں بچے انسانی حقوق کے علمبرداروں کا منہ چڑھا رہے ہیں،اس دوہرے معیار ہی نے دنیا میں بد امنی کا بازار گرم رکھا ہے۔، یہ سب کچھ میڈیا کی آنکھ سے پورا عالم دیکھ رہا ہے۔عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے بچوں کو سامنے رکھتی تو جنگ بندی کا فیصلہ آسان ہوتا، اُس خاندان کے دکھ اور درد کا شمارہو سکتاہے، جسکی آنکھوں کے سامنے جگر گوشے بموں کی نذر ہوں، جسد خاکی پہچاننے کے قابل بھی نہ رہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے،یہ بدقسمت لوگ دنیا کی نا انصافی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ اسلامی فوج وجود میں آچکی ہے جس کے سپہ سالار بھی مقرر ہوئے، مگر اس ہولناکی میں انکی کوئی سرگرمی سامنے نہ پاکر وہ خوشی فہمی بھی کافور ہوگئی جو ایک ملت کے طور پر تھی۔ جہاں مسلمانوں کی فکر ختم وہاں سے یہودو نصاریٰ کی سوچ شروع ہوتی ہے،امت کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انھوں نے ایسی انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی کی، جب مختص مقاصد حاصل ہو گئے، تو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے انھیں دہشت گرد وں میں شمار کر لیا، اسکی آڑ میں حریت پسند اسلامی تحریکوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا، انکی انتخابی سیاست کو رد کرکے انھیں تشدد پر اکسایا، اسکی بڑی مثال نائن الیون میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت ہے، اس کے باوجود انکی نظر میں ایسے مسلم آج بھی مجرم ہیں۔ یہی سازشی تھیوری اب حماس کے حوالہ سے زیر گردش ہے،تمام تر اخلاقی، قانونی، سفارتی،بین الا قوامی ضابطے صہیونی ریاست کے پاؤ ں کے نیچے ہیں پھر بھی کوئی قرار داد فلسطین کے حق میں پیش نہ ہی منظور ہوتی ہے، اس لئے کہ ہم کمزور ہیں۔
عالمی فورم صرف طاقتور کی بات سنتا ہے، یہ خیالی مکتوب فلسطینی لڑکی کے جذبات کی ترجمانی ہے جس پر غموں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں، مسلم برادری کے سلوک سے نالاں اہل غزہ صرف اس اُمید پے زندہ ہیں کہ اگر شہادت پا گئے تو جنت کے مکین ہوں گے، تاہم دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کے اجتماعات اس بات کی دلیل ہے کہ متاثرین غزہ حق پر ہیں۔

 

تبصرے بند ہیں.