محسن نقوی سپیڈ کا چرچا اور کچھ گذارشات!!!

110

اس سے پہلے میں سابقہ وزیر اعظم پاکستان و کئی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہنے والے میاں محمد شہباز شریف کی سپیڈ اور ان کے کاموں کا معترف تھا اور گذشتہ کئی سال سے میاں شہباز شریف کی شدید کمی محسوس ہوئی لیکن بطور نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے گذشتہ ادوار کے سب گناہ دھو ڈالے ہیں علم بشریات کے ایک معمولی سے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ محسن نقوی میں عام عوام سے محبت اور ان سے متعلقہ معاملات میں بہتری لانے کا شدید جذبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی”باڈی لینگوئج“ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتی اور ان کے کام ان کے اخلاص کی گواہی دیتے ہیں۔ میں نے جب سے صحافت شروع کی تب سے محکمہ صحت اور تھانہ کلچر میں بہتری لانے کے لئے اپنی سی کوشش جاری رکھی اور ان دونوں محکموں میں انسان نما جلادوں کے ناپاک چہرے سے نقاب اٹھایا اور بہترین کام کر نے والوں کی تعریف کی اور پھر مسئلے کا حل اپنے کالموں کے ذریعے حکام بالا تک پہنچایا۔ جب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو ہسپتالوں کو بہتر کر نے کے لئے ایک بالکل آسان اور سادہ سا کلیہ میں نے پیش کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ان کے زیر سایہ چلنے واے ٹرسٹ کی زیر نگرانی اتفاق ہسپتال ماڈل، تمام سر کاری ہسپتالوں میں نافذ کر دیں جس سے کچھ ہی روز میں پنجاب کے تمام سر کاری ہسپتالوں میں انقلاب بر پا ہو سکتا ہے۔
میری اس گذارش پر کہاں تک عمل ہوا اور کیا کوشش کی گئیں اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔ بہر حال محسن نقوی نے عوام سے محبت اور ان کے کاموں کو فوری طورپر مکمل کرانے کی سپیڈ میں شہباز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کا خود میاں صاحب نے بھی اقرار کیا ہے۔ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کی ابتر صورتحال ہو، اربوں روپے لگنے کے باوجود تھانہ کلچر کا بظاہر خوشنما لیکن اندر سے بد بودار نظام ہو، ٹریفک کی روانی کو بحال رکھنے کے لئے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہو یا سر کاری تعلیمی اداروں کی مخدوش حالت، ایسے تمام اداروں کو کے مسائل کو جانا، اس پر غور کیا اور اسے حل کر نے میں مصروف ہو جا نا، بلا شبہ محسن سپیڈ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن میں یہاں کچھ گذار شات بھی پیش کروں گا کہ کیا آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے محنت، لگن اور کاوشوں کے بعد سسٹم میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ بار بار سرکاری ہسپتالوں کے دوروں کے دوران پھرسے وہی شکایت ملتی ہے جو اس سے پہلے بھی ملتی تھی۔ سکولوں کی حالت زار پہلے سے زیادہ ابتر ہو رہی ہے۔تھانوں کو سجانے اور پولیس کو اربوں روپے فنڈز دینے کے باوجود پولیس صرف سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہی ہے اور صوبے کو جرائم کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ اب بھی لوگوں کو معمولی سے مقدمے کے اندراج کے لئے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔کیا کبھی اس بارے سوچا گیاکہ محسن نقوی کی اس سپیڈکے آگے بریکر لگانے والے یہ لوگ کون ہیں؟ ان کے مکروہ چہرے اور عزائم جانے گئے کہ کیسے اپنے مفادات کے حصول کے لئے یہ کسی بھی محکمے کو ٹھیک ہونے نہیں دیتے۔
قارئین کرام!بیورو کریسی نامی یہ مخلوق، ہر حکمران کو ایسے چکروں میں ڈالتی ہے کہ الامان الحفیظ! پہلے سے موجود سہولیات کو بہتر بنا نے کی بجائے اربوں روپے کے فنڈز سے مزید منصوبوں کو شروع کرایا جاتا ہے جن کا مستقبل میں وہی حال ہو گا جو پہلے منصوبوں کا ہوا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور میں کل 17اسٹیٹ آف دی آرٹ آپریشن تھیٹر ہیں جس میں سے صرف 4ٓٓآپریشنل ہیں اور باقی معمولی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں،اسی طرح دیگر مشینری کا بھی یہی حال ہے جومعمولی سے مرمت سے قابل استعمال بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن مال مفت دل بے رحم کی طرح عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو اپنے باپ کا مال سمجھا جاتا ہے۔ حال ہی میں خود محسن نقوی نے ایک ہسپتال کے دورے کے دوران فرنیچر کو کھلے آسمان تلے دیکھ کر شدید ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ یہ صرف ایک ہسپتال کی کہانی نہیں بلکہ تمام ہسپتالوں میں ایسے ہی حالات ہیں۔ میو ہسپتال کی ٹیلی فون ایکسچینج کئی روز سے صرف ایک کارڈ کے تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہے جو انتظامیہ اور محکمہ صحت کے بڑوں کے غفلت و لاپروائی کا ثبوت ہے۔ محکمہ تعلیم کا یہ حال ہے کہ آپ نقوی صاحب کی شدید سنجیدگی کے باوجود سیلاب سے متاثرہ سکولوں میں ابھی تک نہ بیت الخلا کا انتظام کیا گیا اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے، یہ تو سیلاب زدہ علاقوں کے سکولوں کی حالت ہے شہر لاہور کے پوش علاقوں میں قائم سر کاری سکولوں میں طالبعلم چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں، پینے کا صاف تو کیا گندہ پانی بھی میسر نہیں۔ جبکہ دوسری جانب حرام خوروں اور افسران کی ملی بھگت یا عالم یہ ہے کہ لاہور جیسے شہر میں فلور ملز کھلم کھلا ملاوٹی آٹا بنا نے میں مصروف ہیں جو انسانی زندگی سے کھلواڑ ہے اور چند ٹکوں کی خاطر ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو ملی بھگت سے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ پٹرول اورڈالر کے نرخ میں واضح کمی کے باوجود ضروریات زندگی کی کوئی چیز سستی نہ ہو سکی اور اس کے ذمہ دار بھی ان کے دائیں اور بائیں رہنے والے لوگ ہیں جو محسن سپیڈکے آگے بریکر لگانے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ محسن سپیڈ کے سو فیصد ثمرات حقیقی معنوں میں عام عوام تک پہنچنے کے لئے ایسے لوگوں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملایا جائے اور ان کی حرام خوری کی عادتوں کے آگے بریکر لگاکے اس مافیا کا قلع قمع کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.