الیکشن کا انعقاد: وسوسے اور حقائق

56

ہمارے ہاں ابھی تک کچھ لوگ الیکشنوں کے انعقاد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں انکے خیالات کے مطابق پاکستان میں انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہونے جا رہے ہیں یہی تجزیہ نگار اور سیاسی لوگ پہلے کہتے تھے کہ نواز شریف اگر وطن واپس آ گئے تو پھر انتخابات ہو جائیں گے وگرنہ نہیں۔ اب جبکہ نواز شریف لندن سے وطن واپس تشریف لا چکے ہیں۔ عدالتوں میں پیش بھی ہو رہے ہیں۔ عدالتیں انہیں ریلیف بھی دے رہی ہیں وہ مینار پاکستان میں شاندار جلسہ بھی کر چکے ہیں اور اب تو ان کی انتخابی مہم شروع کرنے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں اب یہی لوگ جو انتخابات کو نواز شریف کی واپسی کے ساتھ مشروط کرتے تھے کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر رہا ہے؟ حالانکہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے حوالے سے معاملات بڑی وضاحت کے ساتھ قوم کے سامنے رکھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بڑے شدومد کے ساتھ مسلم لیگ ن کے خلاف باتیں کر رہی ہے ڈیل کی باتیں کی جا رہی ہیں حالانکہ اپریل 22 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت اور اس کے بعد 16 ماہی اتحادی حکومت میں ن لیگ کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے میں پیپلز پارٹی انکے ساتھ قلب و جان کے ساتھ کھڑی رہی۔ پھر حکومت کی مدت پوری کرنے کے بعد جب کیئر ٹیکر حکومتیں قائم ہو گئیں تو اس کے بعد پیپلز پارٹی نے دبے الفاظ میں ن لیگ کی مخالفت شروع کر دی۔ نواز شریف کی واپسی اور مینار پاکستان کے جلسے کو ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو، ممکن ہے غلط ہو۔ کیونکہ ابھی تک اس ڈیل کے بارے میں کسی قسم کی مصدقہ یا غیرمصدقہ اطلاعات ہمارے سامنے نہیں آئی ہیں۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو صاحبہ مشرف سے ڈیل کر کے ہی وطن واپس تشریف لائی تھیں اور اس ڈیل یا NRO کے بارے میں تمام تفصیلات قوم کے سامنے آ گئی تھیں کہ خفیہ ملاقاتوں کا آغاز اور اہتمام کہاں کہاں اور کس کس کی شراکت کے ساتھ ہوا اور کیا کیا معاملات طے پائے۔ نواز شریف کی مبینہ ڈیل کے بارے میں کوئی تفصیل ہمارے سامنے نہیں آئی ہے اس لئے سردست اسے پروپیگنڈہ ہی سمجھنا چاہئے۔ باقی رہا مینار پاکستان کا جلسہ تو وہ ایک کامیاب جلسہ تھا جسے مریم نواز نے ایک بیٹی کے جذبے کے ساتھ نواز شریف یعنی اپنے باپ کے لئے منظم کیا۔ بیٹی نے محنت کی۔ باپ کی عزت افزائی کے لئے، مسلم لیگ ن یعنی مریم نواز کے اباجی کی جماعت ملک کی پاپولر اور سیاسی قد کاٹھ رکھنے والی جماعت ہے اسکی عوام میں جڑیں بھی ہیں، پاپولیرٹی بھی ہے اسلئے جلسے نے کامیاب ہونا ہی تھا۔ پھر شہاز شریف بھی اچھے اور منجھے ہوئے سیاست کار اور منتظم بھی ہیں سکہ بند قسم کے منظم سیاستدان ہیں انکی محنت بھی رنگ لائی اور مینار پاکستان میں جلسہ کامیاب ہوا۔ مخالفین جو کچھ کہہ رہے ہیں انہیں ایسا ہی کہنا ہوتا ہے انہیں کہنے دیجئے۔ پاکستانی سیاست کا ایک نیا باب شروع ہونے کو ہے۔

یہ نیا باب شاید پہلے ابواب کی طرح ہی ہو، کیونکہ زمینی حقائق کسی طور بھی بدلے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے ہی ہے جیسے پہلے تھی اسکی فکر و سوچ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے، ایک کو توڑ رہی ہے اور کہیں اور جوڑنے کا عمل حسب سابق جاری ہے استحکام پاکستان پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ شاید وہ کنگز پارٹی ہے لگتا بھی یہی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے منحرفین اسی پارٹی میں سمائے جا رہے ہیں اس پارٹی کے کرتا دھرتا، جہانگیر ترین اور علیم خان، ایسی ہی شہرت رکھتے ہیں کہ وہ مقتدرہ کے آدمی ہیں اور انہی کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان بھی کلین ہو کر میدان میں آچکی ہے ان کا ماضی بھی ہمارے سامنے ہے کہ وہ کس طرح کام کرتی تھی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح جوڑ توڑ اور حال و مستقبل کی نقشہ کشی میں مصروف ہے انتخابات ابھی ہوئے نہیں ہیں اور وزیر اعظم کے بارے میں حتمی باتیں ہو رہی ہیں۔

نواز شریف پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کو بھلا کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہو چکی ہے، بجلی، پٹرول، گیس کے نرخ اور اشیاء ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں بلکہ عام آدمی کی رسائی سے نکل چکی ہیں غربت و افلاس عام ہے دوسری طرف سیاست بھی افلاس کا شکار نظر آ رہی ہے چند مہینے پہلے اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعتیں دست و گریبان ہو رہی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لئے اور پھر حکمرانی کے لئے مثالی اتحاد و اخلاص کا مظاہرہ کرنے والی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپر ہو رہی ہیں۔ لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں ن لیگ کو واک اوور دیئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں کبھی نواز شریف کو ”لاڈلا“ کہہ کر اور کبھی کچھ اور کہہ کر طعنے دیئے جا رہے ہیں۔ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لئے پر تول رہے ہیں پیپلز پارٹی کا بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کا خواب ہرن ہو چکا ہے انکے بیانات میں جھنجھلاہٹ نظر آتی ہے کبھی خورشید شاہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اگر چند دن جیل میں رہ کر رہائی پاتے تو اچھا تھا۔ کبھی کوئی اور لیڈر ایسی ہی باتیں اور نصیحتیں کرتا دکھائی دیتا ہے اب تو قومی مجرم کے بارے میں بھی پیپلز پارٹی سافٹ کارنر دکھائی دے رہی ہے الیکشنوں کو قابل قبول بنانے اور سب کو ان میں شرکت کا موقع دینے کے حوالے سے ایسے لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی عمران خان کو بھی عام انتخابات میں شرکت کا موقع دینے کا مطالبہ کر دے۔

پاکستان جن مسائل کا شکار ہے ان کے حل کے لئے انتخابات اسی صورت میں ایک اچھا لائے عمل ثابت ہو سکتے ہیں اگر انتخابات سے قبل تمام مقتدر و سیاسی قوتیں تین نقاطی قومی پروگرام پر متفق ہو جائیں۔ جو معیشت، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی جیسے امور پر مشتمل ہونا چاہئے۔ قومی معیشت کی بہتری اور عوامی فلاح و بہود کے حوالے سے ایک وسیع البنیاد پروگرام تشکیل دے کر اس پر سب سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو متفق ہونا چاہئے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت یا اتحاد کی ہو یہ معاشی پروگرام جاری وساری رہے گا اور اس میں کسی قسم کی جوہری تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ایک وسیع النظر اور قومی معاشی ضروریات کے مطابق پروگرام طے کیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ ہم اس وقت سفارتی تنہائی کا بھی شکار ہیں ہمارے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں ہماری سفارتی و خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ کلیرٹی نہیں پائی جاتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پر بھی اتفاق رائے پیدا کر کے آگے بڑھیں۔

قومی سلامتی بارے بھی موٹے موٹے نقاط پر اتفاق رائے ضروری ہے کہ قومی سلامتی ہے کیا اور اس پر سب کو پابند کیسے رہنا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔

ان تین امور پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے تا کہ حکومت کسی کی بھی بنے یہ تینوں امور تسلسل کے ساتھ انہی خطوط پر چلتے رہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کیا جا چکا ہو وگرنہ انتخابات پہلے سے موجود افتراق و انتشار کا باعث بنیں گے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری نواز شریف کے کندھوں پر آتی ہے کہ وہ قوم کو لیڈ کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں انہیں قوم کی تائید بھی حاصل نظر آ رہی ہے۔ انہیں آگے بڑھ کر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے اور تمام سیاسی قوتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے۔ اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.