کتابوں سے پھول مل ہی جاتے ہیں

135

جب سے گوگل اور سوشل میڈیا نئی اور جدید جہت کے ساتھ آیا ہے انفارمیشن کی تصدیق کی زحمت کم کم ہی ہو پاتی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست کے نئے انگ سے فرار کہاں تک ممکن ہے مگر کوشش ہے کہ آج چند واقعات ہی لکھ کر تاریخ کے پوسٹ مین کا کردار ادا کروں۔ بہت سے معروف اور نامور لوگوں کے ساتھ کوچہ چیلوں (دہلی کا محلہ) میں آصف علی بیرسٹر، مولانا محمد علی اور شوکت علی، مولانا احمد سعید ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند، عارف ہسوی، ملا واحدی، حضرت جالب، علامہ راشد الخیری، مرزا فرحت اللہ بیگ، مفتی کفایت اللہ اور پروفیسر مرزا محمد سعید ”آئی ای ایس“ جیسے معروف حضرات جن میں صرف ”محمد علی، شوکت علی“ رامپور کے تھے باقی سب سات پشتوں سے دلی کے رہنے بسنے والے تھے اس محلے کے غیر معروف لوگوں میں ایک تو کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب تھے جو بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے وہ اس کے علاوہ فارسی اور عربی بھی پڑھاتے تھے۔ ان کے علم و فضل کا یہ حال تھا کہ لارڈ کرزن جب دلی میں ہندوستان کے وائسرائے بن کر آئے۔ تو لارڈ کرزن نے یہ آزمانے کے لیے کہ دلی میں عربی دان کیسے کیسے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے کامریڈ پریس میں اپنے سیکرٹری کے ہاتھ ایک عربی کے ناول کا بے نقط اور بغیر اعراب کا قلمی نسخہ بھجوایا کہ اس پر نقطے اور اعراب لگوا دیئے جائیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے یہ قلمی نسخہ مفتی کفایت اللہ کو یہ کہہ کر بھجوایا کہ یہ آپ کے امتحان کا پرچہ ہے اور وائسرائے ہند کی طرف سے آیا ہے۔ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ کوئی مذہبی کتاب ہوتی تو میں اس پر نقطے اور اعراب لگا دیتا۔ میں ناولوں کا آدمی نہیں ہوں۔ اس پر مولانا محمد علی جوہر نے یہ ناول کیکر والی مسجد کے مولوی صاحب کو دیا جنہوں نے رات بھر میں مذکورہ بے نقط ناول پر نقطے بھی لگا دیئے اور اعراب بھی۔ اس کارنامے پر جب وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ان کیکر والی مسجد کے غیر معروف مولوی صاحب کو شمس العلما کے خطاب سے نوازنا چاہا تو ان مولوی صاحب نے یہ کہ کر خطاب لینے سے انکار کر دیا کہ سخن فہمی عالمِ بالا معلوم شد۔ علامہ شبلی نعمانی کو بھی وہی خطاب اور ہمیں بھی وہی خطاب لا حول ولاقوۃ۔
ایک اور معروف بزرگ اسی محلے میں یعنی چیلوں کے کوچے میں مسجد کالے خاں کے قریب
کوئی سو برس سے اوپر کی عمر کے تھے اور کہا یہ جاتا تھا کہ یہ بہادر شاہ ظفر کی گھڑ سوار فوج کے رسالدار تھے ان کے لیے بھی کھوج لگا کر ایک گورا مولانا محمد علی جوہر کے کامریڈ پریس آیا اور کہا ”یہاں کوئی بادشاہی وقت کا گھڑ سوار رہتا ہے جسے ہم دیکھنا مانگتا ہے“۔ مولانا محمد علی جوہر نے ان بزرگ کے گھر ڈولی بھجوائی اور جب وہ تشریف لائے تو مولانا نے کہا۔ یا حضرت یہ گورا آپ کا امتحان لینے آیا ہے۔ وہ بزرگ بولے ”میاں اب تو قبر ہی میں امتحان ہو گا“۔ اس پر گورا بولا کہ کیا آپ ہمیں گھوڑے کی سواری کر کے دکھا سکتا ہے؟ بزرگ نے کہا، گھوڑا کہاں ہے۔ یہ گورا بھی لال قلعے گھڑ سوار فوج کا کوئی بڑا افسر تھا۔ اس نے لال قلعے سے ایک موٹا تازہ گھوڑا منگوایا اور ان غیر معروف بزرگ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ بزرگوار نے کہا کہ اب اس گھوڑے پر ہمیں سوار بھی کر دو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہ حضرت اسی طرح گھوڑے پر سوار ہو کر کوئی دس قدم دُلکی چلاتے ہوئے گئے اور پھر انہی قدموں پر گھوڑے کو واپس لوٹا لائے اور کہا کہ لو بھئی اب ہمیں اترواؤ۔ اب اس سے زیادہ کا دم ہم میں نہیں رہا۔ بڑھاپا، بُرا آپا ہوتا ہے۔ گورے صاحب نے پہلے ان بزرگ کا منہ دیکھا اور پھر مولانا محمد علی جوہر کا اور پھرکہا یہ کیا بات ہوئی۔ بزرگوار بولے کہ جناب والا ذرا گھوڑے کے سموں کے نشان دیکھئے۔ گھوڑا اپنے سموں سے جو نصف دائرے مٹی پر بناتا ہوا گیا تھا، جب انہی قدموں پر واپس ہوا تو وہ نصف دائرے مکمل گول دائروں میں تبدیل ہو چکے تھے۔
ایک اور بزرگ تھے جو اس کالے خاں کی مسجد کے عقب میں رہتے تھے اور نگینہ ساز تھے۔ ان کو اپنی بیٹی کے بیاہ پر ایک ہزار روپے کی ضرورت پڑ گئی جس جوہری کے ہاں یہ کام کرتے تھے اس سے جب اُنہوں نے ایک ہزار روپے قرض مانگے تو اس نے کچھ آنا کانی کی۔ دوسرے دن یہ ایک ہیرا لے کر اس جوہری کے پاس گئے اور کہا کہ لو لالہ یہ ہیرا ہمارے بزرگوں کے وقت کا ہے اور ایسے ہی آڑے وقت کے لیے رکھا تھا۔ لالہ جی بولے میاں جی اب تو چاہے آپ دس ہزار روپے لے لیجیے۔ ایک ہزار تو اس ہیرے کی منہ دکھائی کے لیے بھی کم ہے۔ ان نگینہ ساز صاحب نے کہا کہ یہ ہیرا میں فروخت کرنے کی نیت سے نہیں لایا، آپ اسے صرف گروی رکھ لیجیے ایک ہزار روپے میں۔ چنانچہ بیٹی کی شادی سے فارغ ہو کر جب اُنہوں نے کوئی ایک برس میں محنت مزدوری کر کے ایک ہزار کی رقم کر لی تو اس جوہری سے کہا یہ لیجئے اپنے روپے اور لائیے میرا ہیرا۔ لالہ جی نے ہیرا نکلوایا تو کہا اب ایک کٹوری میں پانی بھی منگوا لیجیے اور جب کٹوری میں پانی آیا تو ان نگینہ ساز صاحب نے اس جوہری سے کہا کہ اب یہ ہیرا اس پانی کی کٹوری میں ڈال دیجئے۔ ہیرا جیسے ہی کٹوری میں ڈالا وہ گھل گیا جوہری نے حیران پریشان ہو کر پوچھا میاں جی یہ کیا تماشا ہے۔ نگینہ ساز صاحب نے جواب میں کہا کہ یہ کوزے کی مصری کا ٹکڑا تھا جسے میں نے اس طرح تراشا تھا کہ آپ جیسے جوہری کی آنکھ دھوکا کھا گئی۔ جوہری نے کہا ”اور جو اسے چیونٹیاں کھا جاتیں تو“ نگینہ ساز صاحب بولے میں تو زندہ تھا۔ لالہ جی افسوس کہ آپ نے ایک ہزار روپے کا میرا اعتبار نہ کیا اور اس دمڑی کے مصری کے کوزے کے ٹکڑ ے پر مجھے دس ہزار روپے دینے پر آمادہ ہو گئے۔ آپ جیسے نا قدروں کے ہاں اب میں کام نہیں کروں گا۔
حکیم اجمل خان صاحب ”شریف منزل“ سے ایک دفعہ باہر نکلے تھے کہ کیا دیکھا ہندوؤں کی ایک بارات چلی آتی ہے۔ حکیم صاحب بارات کے جلوس کے نکل جانے کے انتظار میں رُک گئے اور ان کے ساتھ ان کے مصاحب بھی۔ جب دولہا کا گھوڑا حکیم صاحب کے سامنے سے گزرا تو حکیم صاحب کی بھی نظر اس پر پڑی۔ فرمایا دولہا نہیں دولہا کی ارتھی جا رہی ہے، پتہ نہیں کس کا سہاگ اجڑا ہے۔ کہتے ہیں ’شریف منزل‘ سے دو پیسے ڈولی پر دلہن والوں کا گھر تھا۔ جب دولہا وہاں پہنچا اور وہاں گھوڑے سے دلہن والوں نے دولہا کو اتروایا تو وہ گھوڑے سے اترنے کے بجائے دھڑ سے زمین پر گر پڑا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ دولہا مرا کیسے۔ حکیم صاحب کے مصاحبوں نے جو اس وقت ساتھ تھے، جب حکیم اجمل خاں صاحب سے پوچھا کہ حضور آپ نے یہ کیسے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ دولہا نہیں دولہا کی لاش گھوڑے پر جا رہی ہے؟ تو حکیم صاحب نے فرمایا: آپ لوگوں نے شاید غور نہیں کیا کہ دولہا کے ماتھے پر سیندور کا ٹیکہ گیلا تھا۔ حالانکہ نیل کے کٹڑے سے جہاں کی یہ بارات تھی بلی ماراں تک آتے آتے اس کا ماتھے کا سیندور خشک ہو جانا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے جسم کا سارا خون ست گیا تھا اور جب جسم میں خون ہی نہ رہے تو زندگی کے کیا معنی۔
نئی نسل کو گوگل اور ٹوئٹر کی تصدیق کے لیے کتابوں کو بھی کھولنا چاہئے۔ کتابوں کے اوراق سے گزریں تو کردار، پھول اور واقعات مل ہی جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.