تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کا سیاسی کیرئیر اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔وہ کئی بار سیاست کے میدان سے باہر ہوئے اور اس کے لیے انہیں یا تو جلا وطن ہونا پڑا یا اُنہوں نے خود ہی ملک سے دوری اختیار کر لی۔ اب ایک بار پھر وہ طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد ملک واپس آئے ہیں، گئے تو وہ اپنا علاج کرانے مگر کم بیک ہوتے اُنہیں 4سال لگ گئے۔
نواز شریف کی وطن واپسی پہ اُن کے پارٹی ورکرز کو بہت سی اُمیدیں تھیں جو وقتاً فوقتاً عوام میں جا کر ایک ہی راگ الاپتے تھے کہ نواز شریف آئے گا تو ملک بچائے گا، درحقیقت یہ بات مریم نواز صاحبہ کی جانب سے ہی بات نکلی اور پھر اتنا اس بات کو دہرایا گیا کہ پاکستان کاہر شخص پھر یہی سوچنے لگا کہ نواز شریف پاکستان آئیں گے تو ملک کو بچائیں گے۔ مگر افسوس ہمارے عوام ماضی کو جلد بھول جاتے ہیں اُن کی سوچ ہی شاید اسطرح مسائل میں اُلجھا دی جاتی ہے کہ پھر عوام اپنے مسائل میں ہی الجھے رہتے ہیں کہ اُن کو ماضی کی باتیں ہی بھول جاتی ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی (ن) لیگ کی سیاسی ساکھ کو بحال کر پائے گی۔ہر ذی شعور،اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کے ذہن میں تھا کہ شاید نواز شریف آئیں گے کوئی لندن پلان لے کر، یا پھر معیشت کو بدحالی سے نکالنے کے لیے کوئی نیا پلان ہوگا، تاکہ ملک و قوم ترقی کریں مگر اُس دن کے جلسے میں دو طرح کے لوگ تھے اور بس وہی لوگ ہی خوش ہوئے، ایک جن کو جلسہ بھرنے کے لیے پیسے دئیے گئے اور دوسرا وہ پارٹی ورکر جس پر ہمیشہ پارٹی کی جانب سے نوازشات رہیں۔
اب نواز شریف نے صرف پارٹی ورکرز کو خوش کیا یا پھر کبوتر بازوں کو کیونکہ وہ ایک بازیگر کی طرح جلسے میں آتش بازیاں کرکے اور کبوتر اُڑا کے بس عوام کو خوش کرتے رہے۔ تاجر حضرات اور باشعور طبقہ تو نواز شریف کی اس حرکت پہ بُری طرح مایوس ہو کر رہ گیا، یا ماضی کی لکیر پیٹتے رہے جو فقرہ بہت مشہور ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ ایک بات جو نواز شریف صاحب نے کی کہ میں مفاہمت کی سیاست پہ یقین رکھتا ہوں انتقام کی نہیں تو ایک سوال تو اب پوری قوم کہ ذہن میں آرہا ہے کہ پھر عمران خان کو کیوں جیل میں رکھا؟ اُن کے کیسز نواز شریف سے بڑے تو نہیں ہیں یا پھر سے ان کو میدان لگنے کا خوف ہے۔ پھر یہ انتقام نہیں تو اور کیا ہے؟
اب (ن) لیگ کی پبلک میں کتنی پذیرائی اور ووٹ بینک کتنا ہے اس جماعت کے ضمنی انتخابات میں ہی ظاہر ہو گیا تھا۔ نواز شریف ملک میں رہ کر اتنے خود کو مضبوط نہیں رکھ پاتے جتنا کہ وہ ملک سے باہر رہ کر خود کو بین الاقوامی سطح پہ لابنگ کر کے خود کو مضبوط کر کے وطن واپس لوٹتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں نواز شریف پہ جو مقدمات چل رہے تھے اُن سے نبٹنے کی تیاری بھی وہ پاکستان میں قدم رکھنے سے پہلے کرکے آئے تھے۔ ماضی میں بھی نواز شریف کی حکومت جب ختم ہوئی اور مشرف نے ٹیک اوور کیا تو تب بھی گارنٹی عرب ممالک نے ہی دی تھی کہ یہ 10سال ملک واپس نہیں آئیں گے۔مگر اُس وقت جلاوطنی کے بعد جب نواز شریف اور بینظیر بھٹو وطن واپس آئے تو بدقسمتی سے بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو سارا کریڈٹ پیپلز پارٹی لے گئی اور گورنمنٹ پیپلز پارٹی کی قائم ہو گئی۔ مگر اب صورت احوال ماضی سے کچھ مختلف ہے، اب نواز شریف کی وطن واپسی سے پہلے بھی عرب ممالک کی فیور لے کر آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنے سے پہلے ایک تو کیس سرے سے توشہ خانے کا ختم ہو گیا، دوسرا جو دو کیس، العزیزیہ سٹیل مل، اور ایون فیلڈ کیس چل رہے تھے اُس میں بھی حفاظتی ضمانت بھی منظور تھی دوسری چیز جو مشروط تھی کہ نواز شریف کی طبیعت خراب ہونے کی صورت میں وہ پھر سے باہر جا سکتے ہیں۔
اب تمام میڈیا چینلز پہ یہی بات زیربحث رہی کہ اس کیس سے بری ہونگے یا پھر سے جیل جائینگے؟ میں نے بہت سے اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں یہ بات قبل از وقت کہی تھی کہ نواز شریف صاحب کو ان کیسز میں بھی کلین چٹ مل جائے گی۔ 24 دسمبر 2018 میں جو جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی تھی اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے احتساب عدالت نے سابق پرائم منسٹر نواز شریف صاحب کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں 7سال قید اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔
اب (ن) لیگ کے بہت سے رہنماؤں کو اس بات کا بخوبی علم بھی ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا مگر پھر بھی وہ میڈیا پہ یہی بات کر رہے ہیں کہ ہم تو یہی چاہ رہے ہیں کہ احتساب ہو اور میرٹ پہ ہو اور نواز شریف صاحب آئے ہی ملک میں اسی وجہ سے ہیں اور اداروں کا احترام رکھتے ہوئے اُنہوں نے خود کو پیش کیا، مگر یہ سب دکھاوا اور لفظی باتیں صرف عوام کے لیے ہی کی جا رہی ہیں کہ عوام یہی سوچے کہ نواز شریف نے خود کو قانون کے آگے سرنڈر کیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ 24 دسمبر 2018 کی رپورٹ ٹھوس شواہد مل جانے کے بعد ہی تو سزا سُنائی گئی مگر ایک بار پھر سے وہی بیانیے وہی صفائیاں اور پھر اُس کے بعد باعزت بری۔ مگر یہ فیصلہ آچکا ہے آج یہ بات نہایت افسوس سے لکھ رہی ہوں کہ ہماری جمہوریت کے ساتھ ساتھ ہمارے ریاستی ادارے بھی ڈمی ہو چُکے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے لیے تو العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرنے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جو تجزیہ 15روز پہلے کیا تھا اب اس کے نتائج صاف سامنے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کو کلین چٹ مل جائے گی باقی سب دکھاوا اور کاغذی کارروائیاں ہیں۔
اگر یہ دوہرا معیاریونہی برقرار رہا تو اس ملک میں انصاف کی دھجیاں اُڑ جائیں گی اور قانون تو پہلے ہی صرف غریب ہی کے لیے بنا ہے۔
جتنا تیزتر انصاف نواز شریف صاحب کو ملا اگر عام آدمی کو بھی ملنے لگے تو ملک کی تقدیر بدل جائے مگر یہ دوہرا معیار کبھی نہ ختم ہونے والا ہے کیونکہ اس ملک میں اس معیار نے اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ جسے اکھاڑنا اب مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔
تبصرے بند ہیں.