غیر قانونی افغان تارکین وطن کے پاکستان سے انخلا کو داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ حکومت پاکستان کے اس اقدام سے آنے والے دنوں میں داخلی سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں موجود بد امنی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
غیر قانونی افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا یہ اہم ترین فیصلہ 3 اکتوبر کو ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فیصلے سے قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے بارہا اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر یہی تارکین وطن ملوث ہو تے ہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ اب غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس فیصلے کے مطابق تمام غیر قانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے جس کے بعد ان کی ریاست بدری کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
افغان تارکین وطن وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979 میں افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد ہجرت کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے اپنی سیاسی اور عسکری حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ انہیں ریاستی مہمان بھی قرار دیا۔ ابتدا میں یہ مہاجرین خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم کیے گئے کیمپوں تک محدود رہے تاہم بعد ازاں یہ پورے ملک میں پھیل گئے جس سے پاکستان میں معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی نوعیت کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔
1979ء کے بعد اس وقت کی حکومتِ پاکستان نے افغان مہاجرین کے مسائل کو دیکھنے کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ اسے افغان کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔ ایک چیف کمشنریٹ آفس اسلام آباد جبکہ کمشنریٹ دفاتر صوبوں میں قائم کیے گئے۔ افغان کمشنریٹ وزارتِ سرحدی امور کے تحت کام کرتے ہیں اور افغان مہاجرین کی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے حوالے سے اپنی خدمات اور فرائض انجام دیتے ہیں۔ 1995 تک افغان کمشنریٹ کا دائرہ کار افغان مہاجرین کے کیمپوں تک محدود تھا کیونکہ اس وقت تک سارے افغان مہاجرین ان کیمپوں تک محدود تھے لیکن اس کے بعد یہ مختلف شہری علاقوں میں پھیل گئے۔ افغان کمشنریٹ کے مطابق 60 سے 70 فیصد افغان مہاجرین کیمپوں کے بجائے شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ اس سلسلے میں افغان کمشنریٹ کی ایما پر وزارت سرحدی امور کی منظوری سے اربن ریفیوجی پالیسی بھی بنائی گئی۔ اس وقت افغان مہاجرین ملک میں جہاں جہاں بھی مقیم ہیں ان کا سارا ریکارڈ وزارت سرحدی امور کے پاس ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس صورت حال سے صحیح طریقے سے نہ نمٹا گیا تو اس سے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ افغانستان کی اعلیٰ قیادت بخوبی واقف ہے کہ پاکستان نے نہ صرف افغانستان سے آنے والے تارکین وطن کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھولے بلکہ بطور مہمان ان کی مہمان نوازی بھی کی، انہیں یہاں بسایا اور انہیں چھت مہیا کی۔ ان کی تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں بھی کافی مدد کی گئی۔
دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام افغان شہریوں کو پاکستان سے نکالا جا رہا ہے جو درست نہیں ہے، صورت حال اس کے برعکس ہے۔ حکومت کی طرف سے صرف ان افغان تارکین وطن کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا کوئی قانونی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی قانونی جواز۔ ان کے پاس کوئی امیگریشن پرمٹ یا پاسپورٹ ہے اور نہ دیگر دستاویزات۔ ایسے لوگ دنیا کے کسی بھی خطے یا ملک میں موجود ہوں، انہیں ہر صورت قانونی دھارے میں لایا جاتا ہے۔ وہ یا تو وہاں کی شہریت اختیار کرتے ہیں یا پھر وہاں سے نکال دیے جاتے ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے تمام افغان مہاجر ہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھجوا رہی بلکہ صرف ان لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جن کے پاس یہاں رہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس لیے واپس بھجوایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر قانونی طریقے سے ویزا حاصل کریں اور پھر اگر پاکستان آنا چاہیں تو پاکستان کے لوگ اور حکومت انہیں خوش آمدید کہیں گے۔
فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، کو ان کے ملک واپس بھیجنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر لوگ منشیات، اسلحہ فروشی، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی ایسی سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کا موجودہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے غیر قانونی ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی۔ لہٰذا افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستان اندرونی طور پر امن و امان قائم رکھنے اور اپنے انتظامی معاملات کی بہتری کے لیے جو اقدامات مناسب سمجھے، اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے چالیس سال سے زائد حق میزبانی ادا کیا ہے۔ اس احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایک دشوار گزار طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں اطراف لسانی، قبائلی اور سماجی روابط کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کا تجارتی راہداری کا تعلق بھی ہے جو دونوں ملکوں کے لیے معاشی اہمیت کا حامل ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا معاملہ دونوں حکومتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ حکومتی اور سیاسی سطح پر اسے دانائی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے اور حکومتِ پاکستان انتہائی سمجھ داری کے ساتھ اس معاملے کے حل کی خواہاں ہے۔
ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے پاک کرنا افواج پاکستان اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے جس کے لیے چاہے کتنے ہی سخت اقدامات کی ضرورت کیوں نہ ہو، کیے جائیں مگر اس ضمن میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو باعزت بنایا جائے کیونکہ احتیاط نہ برتی گئی تو بیالیس سال کی مہمان نوازی دشمنی میں بدل سکتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.