تاجر برادری کا مضبوط قلعہ

78

افہام و تفہیم کی بنیاد پر چلنے والے ادارے، چاہے اِن کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ کے ساتھ ہو چاہے ایک گھر ہی کیوں نہ ہو، جہاں ماحول اچھا ملے گا، وہاں زندگی سے منسلک ہر بات، ہر چیز اپنے اپنے حسن میں نظر آئے گی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کہیں بھی افہام و تفہیم کی بنیاد نہ رکھ سکے، نہ صبر، نہ استقامت، نہ اپنے ریوں میں ایسی گنجائش نکال سکے کہ جس سے کم از کم مخالفت برائے مخالفت یا شخصی دوستی، دشمنی کی جگہ وعدے، تنقید کی جائے جہاں اداروں میں بجائے بہتری کے تنزلی دکھائی دے۔ ایک نہیں کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ہم نہ قانون، نہ اپنے کئے عہد، نہ اپنی ہی بنائی پالیسیز پر عمل کر سکے، نقصان جہاں اچھے کام کرنے والوں کا ہوا بلکہ اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ اس ساری تمہید باندھنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جو کہ تاجر برادری کا جہاں خوبصورت گھر کا درجہ رکھتا ہے وہاں اسے ان کے بڑھتے مسائل کا حل نکالنے کے لیے حکومت کے درمیان مضبوط پل کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو تاجر برادری اپنے وجود میں بہت بڑا مقام رکھے ہوئے ہے، کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا پیمانہ دیکھنا ہو تو وہاں آپ کو انڈسٹری کے فروغ، اس کی ترقی اور خوشحالی میں وہاں کے چھوٹے تاجر سے بڑے صنعتکار کا کردار زیادہ نظر آئے گا۔ یہ انڈسٹری بنانے سنوارنے اور دنیا کے مقابلے میں آگے لے جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔

ادوار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ دور جس سے ہم گزر رہے ہیں مشکلات اور معاشی تباہی کا دور ہے۔ اس تباہی میں جہاں معاشرے میں گھٹن کے اثرات زیادہ محسوس کئے گئے وہاں تاجر برادری بھی متاثر ہوئی۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ تاجر برادری کا یکجا نہ ہونا، اپنے ہی گھر یعنی لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بنائے گئے اپنے ہی اصولوں کی نفی کرنا، عہدے دے کر استعفیٰ مانگنا اور پھر حکومت کے بنائے قوانین کو توڑنا، آپسی تعلقات کو اختلافات میں بدلنا، ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، کی اس پالیسی نے لاہور چیمبر کی ساکھ کو دوسرے اداروں کے سامنے تذلیل کے طور پر پیش کرنا،کیا بری روایات کو بجائے ختم کرنا، ان کو ہوا دینا اس سے سب کو کیا فائدہ ہوا، کیا نقصان۔ یہ الگ بحث ہے مگر تاجر برادری کے ان اختلافات نے تاجروں کو ضرور نقصان پہنچایا اور بجائے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر جہاں اپنے مسائل کے حل کو تلاش کرتے کوئی حل نکالتے ہم سیاست کی طرف چل نکلے اور ایک ہوتے ہوئے بھی ہم بکھرے بکھرے نظر آئے۔

جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا اور وہی ہوا جو قانون نے اپنا راستہ دیا کہ صدر کی مدت 2سال ہوگی۔ اس قانون کو ہمارے احترام الواجب پیاف کے بزرگوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور پھر ایک نہیں کئی محاذ کھول دیئے گئے یہاں یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک صدارت کی کرسی کی رسہ کشی میں اپنے بھی پرائے دکھائی دیئے۔ یہ برا ہوا بلکہ بہت برا ہوا۔ میں اپنے کئی کالموں میں بار بار گزارش کر رہا تھا کہ خدارا اپنے اختلافات کو ختم کرکے قانون کو دیکھوں، قانون کو دیکھیں گے تو پھر اختلافات خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تاجر برادری کے دو بڑے گروپ پیاف اور فاؤنڈرز ہیں اور یہی گروپ ایک صدی سے بدلتے چہروں کے ساتھ صدور، سینئر نائب صدور اور نائب صدور بناتے اور اتارتے نظر آئے۔ یہ دونوں گروپس کا حق تھا اب اس کی حق تلفی کہاں ہوئی جب عدالتی قانون بنایا گیا کہ اب ایک صدر دو سال کی مدت پوری کرے گا تو دونوں گروپس نے اپنے بنائے قانون جسے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں وہی ہوگا جو ہم کہیں گے بنائیں گے، اتاریں گے۔ دوسرا قانون حکومت کا تھا اور یہ قانون بھی تو حکومت نے خود نہیں تاجر برادری کے مطالبے پر ہی بنایا تھا کہ ایک سال نہیں، دو سال کی مدت تاکہ باڈی بہتر طریقے سے بڑے کام کر سکے۔ قانون کی منطق اور پیاف فاؤنڈرز کی منطق میں اس وقت واضح لکیر نظر آئی جب پیاف کے قانون نے غلط قانون پر حملہ کر دیا اور پیاف کے بڑوں نے بڑی جرأت و ہمت دکھاتے ہوئے اس لکیر کو مٹانے کی بھرپور کوششوں کی مگر لکیر جب کھینچ دی جاتی ہے تو پھر وہ مٹتی نہیں۔ 2 سالہ صدارت کی لکیر تو کھینچ دی گئی کہ یہ عدالتی حکم تھا اور پھر 30 ستمبر 2023ء کے بعد یکم اکتوبر 2023ء کا سورج طلوع ہوا تو کچھ بھی نہیں بدلا، نہ چیمبر بدلا، نہ چہرے بدلے، وہی صدر تھا، وہی سینئر نائب صدر تھا، وہی نائب صدر تھا پھر بدلا کیا؟ ہاں بدلا تو ایک صدی سے قائم قانون بدلا، بدلا تو پرانی روایات بدلیں، تُوں تُوں اور مَیں مَیں کی رٹ بدلی اور پھر پیاف کی طرف سے ایک خوبصورت پیغام آیا کہ ہم اُمید کرتے ہیں کہ قانون کے تحت دوسری مدت میں داخل ہونے والی یہ باڈی بہتر طریقے سے کام سرانجام دے گی…… میں یہاں کسی کی طرفداری نہیں کر رہا۔ کاش یہ پیغامات پہلے شروع کر دیئے جاتے، کاش مجھے کیوں نکالا، میں کیوں نکلا، تم نہ نکلے تو ہم نکال دیں گے کی بحث نہ ہوتی تو آج تاجر برادری کتنی مضبوط ہوتی۔ اس کا گھر کتنا اونچا ہوتا اور تاجر برادری میں یکجہتی جس کی بہت ضرورت تھی اور مضبوط نظر آتی۔ اختلافات کو اگر ذاتی، مفاداتی اور نظریاتی حدوں سے دور رکھا جائے تو پھر ادارے اور حسین نظر آتے ہیں۔

دیکھا جائے تو تاجروں کے اندر اتحاد ہوگا تو حالات بہتر ہوں گے اور سب سے پہلے تاجروں کو قانون اور پھر اپنے گھر کو دیکھنا ہوگا۔ کاشف انور کو نہیں یہاں دیکھا یہ گیا کہ گھیرا تنگ کیا گیا ایک ایسے صدر کا جس کے اوپر کوئی الزام نہیں، جس کے اوپر کرپشن کا الزام نہیں، جس نے لاہور چیمبر کو آج کئی کروڑوں کا مالک بنا دیا جس نے کچھ نہیں کیا کم از کم اس نے اپنے پیاف کے پیاروں اور بڑوں کی لاج رکھ لی کہ آپ نے میرا انتخاب کیا، میں نے آپ کے ساتھ پیاف کا نام اور روشن کر دیا۔ دیکھا جائے تو یہ کریڈٹ بھی پیاف کو جاتا ہے کہ اس کا بنایا صدر ایک صدی کے بعد دوسری صدی میں پہلی بار دو سالہ مدت میں داخل ہوا۔ یہ کریڈٹ بھی پیاف کو جاتا ہے کہ اس نے ایک ذہین آدمی کو صدر بنایا اور اس کے کئے کاموں نے اس کو پیاف ہی کا لیڈر بنا دیا۔ یہ میرے الفاظ نہیں یہ پیاف کے میاں شفقت گروپ کے روح رواں سابق صدر لاہور چیمبر طاہر جاوید ملک کے ہیں جب پیاف گروپ میاں شفقت نے خوشگوار روایت قائم کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاہور چیمبر آئے، اس ملاقات کے دوران کہا کہ اب آپ صدر نہیں تاجر برادری کے لیڈر ہیں۔ میرے نزدیک طاہر جاوید ملک نے جو خوبصورت روایت ڈالی اور پیاف کے بنائے صدر کو مبارک دے کر اصل میں پیاف انجم نثار گروپ کو مبارک باد دی کہ آپ کی سلیکشن بہتر تھی تو پھر میرے نزدیک ایسی روایات اس سال مزید ڈالی جائیں، ایک دوسرے کی حیثیت کو مانا جائے اور تمام تاجر برادری یکجا ہو کر جب قانون پر عمل پیرا ہوں گے تو پھر کئی معاملات خودبخود اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.