جنوبی پنجاب کے شہر شجاع آباد کی اس بیٹی کا غم اگرچہ غزہ کی بیٹیوں سے زیادہ نہیں تو اس کو کم بھی نہیں کہا جاسکتا، ماہ دسمبر جس کے لئے خوشیاں لا رہا تھا، اس کو اپنے پیا کے دیس سدھار جانا تھا، مہندی کا رنگ اس کے ہاتھوں پے چڑھنا تھا، اس کی شادی کی تیاریوں کا سلسلہ جاری تھا، کھیتی باڑی کرتے باپ نے سوچا کہ شادی کے لئے رقم کہیں کم نہ پڑ جائے، اس نے اپنے عزیز سے مزدوری کرنے کی بات کی جو تربت میں ٹھیکیداری کرتا تھا، کام ملنے کی اطلاع پا کر تو اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی، پنجاب سے زیادہ مزدوری کا معاوضہ تربت میں مل رہا تھا، سر پر بیٹی کی شادی کا بوجھ اور بچوں کی پرورش نے اسے رخت سفر باندھنے پر مجبور کیا، وہ روز پیسے گن گن کر رکھتا اور گھر والوں کو بیٹی کی شادی کے انتظامات کرنے کی ہدایت دیتا۔
آنکھوں میں خواب سجائے بیٹی اہل خانہ کے ساتھ ہر نئی صبح باپ کی راہ تکتی کہ شائد وہ آج لوٹ آئے مگر اسکی قسمت میں تو کچھ اور ہی لکھا تھا۔
وہ پردیس میں اپنے دوسرے عزیزوں کے ساتھ بے رحم گولی کا نشانہ بن گیا، بدقسمت باپ جس کا استقبال مسکراتے ہوئے چہرے سے بیٹی اور بہن بھائیوں نے کرنا تھا، انھیں تابوت میں مسکراتی ہوئی باپ کی لاش ملی، وہ آنگن جس میں خوشیوں کا راج ہونا تھا وہ گھر ماتم کدہ بن چکا تھا گھر کے سر براہ کی موت کی خبر بجلی بن کر گری، لاڈلی بیٹی گم سم بیٹھی سوچ رہی تھی کہ آخر اس کے باپ کا قصور کیا تھا، وہ تو محنت مزدوری کے لئے گیا تھا، یہ فعل اس کا جرم کیسے بن گیا۔ کسی بڑے صوبہ میں پیدا ہونا اس کے اختیار میں تو نہیں، اس کی زبان سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی تھی، میرے باپ نے مارنے والوں کو تو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا، کیا ہزاروں لوگ دنیا میں محنت مزوردی کے لئے نہیں جاتے میرے باپ نے ان کا کیا بگاڑا تھا، ایسے سوالات ہر ایک سے کرتی جو تعزیت کے لئے آتے۔
ظالموں نے سوئے ہوئے تمام مزدوروں کو چھت سے اتار کر انکی آنکھوں پر پٹی باندھی، نجانے اس وقت ان کے کیا احساسات ہوں گے جب قریب سے گولی مار کر ان کو ابدی نیند سلادیا، انھوں نے حالت میں جان دی ہوگی، یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک ہی خاندان میں اٹھنے والے جنازوں سے کہرام مچ گیا۔
مرنے والے بیچاروں کو کیا علم تھا کہ انھیں غربت کی بھاری قیمت اندوہناک موت کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی، وہ تو اس لئے دوسرے صوبہ میں محنت مزدوری کرنے گئے کہ اپنی اور بچوں کی خواہشات پوری کر سکیں، تربت کی سرزمین پر یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے پہلے بھی جان کی بازی ہارنے والوں میں سماج کے لاچار اور بے بس افراد تھے۔
مرنے والوں میں وہ مزدور بھی شامل تھا،اس کے والدین نے صرف ڈیڑھ سال اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھا تھا، اسکے ایک بچے اور بیوہ کا بوجھ اب کون اٹھائے گا؟ والدین کو دلاسہ کون دے گا، مرحوم غربت کے باعث اپنے نا پڑھنے کا غم اور بچے کو پڑھانے کی حسرت لئے دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوا کہ حرف تاسف کے علاوہ بچا ہی کیاہے۔ اگر انھیں اپنے علاقہ میں محنت مزدوری مل جاتی تو اندھی گولی کا نشانہ بننے کی ضرورت کیا تھی، یتیم ہونے والی بچی کا غم یہ سن کر شائد کم ہو جائے کہ اس علاقہ کے جاگیر دارنے ایک بیوہ پر کتے اس لئے چھوڑ دیئے تھے کہ اسکی فصل سے گھاس کاٹ لیا تھا، دوسرے نے ملازمہ کی غربت اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسکی عزت تار تار کردی اور پھر اپنے ملازم پر تشدد اس لئے کیا اس سے نکاح کرے تاکہ اس کا گناہ چھپ سکے۔
ہر سیاسی عہد میں مسند اقتدار پر براجمان جاگیر دار طبقہ ایسی خرافات سے فرصت پاتا اور علاقہ میں صنعت کا جال بچھاتا تو شجاع آباد کے خاندانوں کو اپنے پیاروں کی موت کا دکھ آج نہ اُٹھانا پڑتا۔ جاگیروں اور خانقاہوں کی کمائی سے انھیں اتنی فرصت کہاں کہ وہ عوامی حالت زار دیکھ سکیں کہ جنوبی پنجاب کے بعض خطوں میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ میں پانی پیتے ہیں۔
ہر علاقہ خطہ کے وڈیروں، سرداروں، نوابوں کا ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے، کیا مارنے والے اپنے جرم سے بے خبر ہیں؟ مگر انکی برین واشنگ کا سیاسی فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں، جنہوں نے بلوچوں کو مظلوم اور بڑے صوبہ کے متعلقین کو ہمیشہ ظالم کے روپ میں پیش کیا، ریاست سے زیادہ طاقت ور افراد یا گروہ بھی ہو سکتے ہیں یہ سوال مرنے والوں کے لواحقین سے سامنے بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اپنی غربت پر ماتم کرتے انکے بچے خود سے پوچھتے ہیں کہ ان کا تعلق بھی کسی بڑے گھرانہ سے ہوتا، یہ گدی نشین، سردار یا وڈیرے ہوتے تو پھر کیونکر اپنے پیاروں کی لاشیں وہ اس انداز میں وصول کرتے، بے دردی، سفاکی کی موت آخر انکے حصہ میں کیوں آئی ہے، بڑے صوبہ سے تعلق رکھنے والا، جاگیردار، گدی نشین، وڈیرہ وہاں جاکر موت کے منہ سے کیوں بچ جاتا ہے؟ مارنے والوں کی بندوق کی نالی کمزور کی طرف ہی کیوں اٹھتی ہے؟
پروٹوکول اور سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ہی لواحقین کے لئے باعث تسکین تھا، ورنہ مزدوروں کی قسمت کہاں کہ ہیلی کاپٹر میں سفر کا سوچ سکتے، یہ تو اشرافیہ کا خاصہ ہے، اس خطہ کے جاگیر داروں نے البتہ یہ مہربانی ضرور کی کہ لواحقین سے ہمدردی کے ساتھ مالی امداد بھی دی۔
اس نوع کے سانحات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، جن کے شناختی کارڈ دیکھ اور گاڑیوں سے اتار کر مارا گیا، ان بے گناہوں کا خون کب تک رائیگاں جائے گا، ایک طرف دن رات گوادر کی فیوض برکات کا ورد کرنا دوسری سفاکانہ قتل و غارت ہونا دوست ملک کو کیا پیغام دے گا۔
ایک زمانے میں کراچی پورے ملک کی ماں سمجھا جاتا تھا، ہر بے روزگار کو وہاں روزگار مل جاتا تھا، پھر وہاں لسانیت کا ایسا بیج بویا گیا، آج جس کا انجام سب کے سامنے ہے، شجاع آباد کی یہ بیٹی اپنے باپ کا لہو کس کے ہاتھوں پہ تلاش کرے، امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کو متاثرہ خاندانوں سے ملاقات میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ملک میں کمزور کا خون بہانا، اس کا گھر جلانا، اسکی بیٹی کو اغوا کرنا معمول بن چکا ہے۔ دو دہائیوں سے جاری یہ سلسلہ آخر کب تک رکے گا؟؟
تبصرے بند ہیں.