مدبرانہ سیاست!

81

ہم نے سیاست میں تہذیب، تمیز اور برداشت کی باتیں تو بہت سنی ہیں لیکن اس کا عملی نمونہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک لوگوں کا خیال تھا کہ نوے کی دہائی میں بدترین سیاست ہوئی اور ایک دوسرے کی مخالف سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے ہر ممکن منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے۔ اس وقت بھی مدبر لوگ اس تمام صورتحال کو برا سمجھتے رہے اور برا کہتے رہے لیکن ان کی آواز نہ سنی گئی۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان دونوں سیاسی پارٹیوں (پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی) کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ان کی قیادت مل کر بیٹھی اور آئندہ ایک مہذب اور مثبت سیاست کرنے کے لیے میثاق جمہوریت بھی دستخط کیا۔ (اگرچہ اس پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہو سکا لیکن پھر بھی یہ کاوش قابل ستائش تھی)۔ نواز شریف صاحب اور بینظیر صاحبہ نے مل کر قومی مسائل کو حل کرنے کا عہد کیا۔عوام کو بھی امید ہوئی کہ اب سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور منفی ہتھکنڈے آزمانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے بجائے ان کی بہبود پر بھی کچھ توجہ دیں گے۔ پھر جانے کیسے اچانک پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال آیا اور کئی سال تک ایک ٹانگہ پارٹی کا سربراہ رہنے والے عمران خان کو ایک قومی راہنما کے طور پر لانچ کیا گیا۔ ان کی شخصیت کو نا صرف ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھارا گیا بلکہ انہیں نئے سربراہ مملکت اور ملک کے تما م تر مسائل اور مشکلات کے نجات دہندہ کے طور پیش کیا گیا۔

شائد اس وقت توعمران خان صاحب کوخود بھی اپنی سیاسی حیثیت میں اتنی جلدی اور اتنے زیادہ اضافہ کی توقع نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے ان تمام عناصر کو راضی کرنے اور راضی رکھنے کے لیے ہر ممکن جائز اور ناجائز طریقے آزمائے جنہوں نے ان کے سر پر ہما بٹھانے کی پلاننگ کی تھی۔

اپنی سیاسی مہم میں انہوں نے اصولوں، اخلاقیات اور آئین سب کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بدزبانی، بدتہذیبی اور قانون شکنی کا ایسا سلسلہ چلا کہ وہ آج بھی قابو سے باہر ہے۔یہ سلسلہ اپنے عروج پر اس وقت پہنچا جب عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کو ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ایوان اقتدار سے نکالا گیا۔ دیہی کلچر میں ایک بات مشہور ہے کہ اگر آپ کے پاس دلائل ختم ہو جائیں تو آپ اپنے مخالف کا گریبان پکڑ لیں۔ بس کچھ ایسے ہی اصول عمران خان صاحب نے اپنائے اور یہی سبق اپنے کارکنان کو دیا۔ جس کا عملی مظاہرہ ہم گھروں، گلیوں، بازاروں حتیٰ کہ دوستوں اور خاندان کے افراد میں دیکھ رہے ہیں۔

ابھی کچھ ہی روز پہلے عمران خان صاحب کے ایک چیلے شیر افضل مروت جو ان کے وکیل بھی ہیں نے ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران اسی قسم کے عدم برداشت کا ایک عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسٹر مروت کی اس نامعقول حرکت پر ان کی پارٹی ان کی سرزنش کرتی مگر افسوس کہ ان کی اس حرکت پر ان کی پارٹی ان کو ہیرو بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

اس تمام صورتحال کے برعکس مشاہدے کی بات ہے کہ، باوجود اس کے کہ ہم ان کی سیاست اور ان کی حکمت عملیوں سے اختلاف کریں، میاں نواز شریف نے، بالخصوص نوے کی دہائی کے بعد کی سیاست میں تہذیب، تمیز، تدبر اور برداشت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بات انہیں ایک فرضی مقدمہ میں نااہل کر کے اقتدار سے علیحدہ کرنے کی ہو، ان کی اور ان کی بیٹی کی گرفتاری کی ہو یا ان کے خلاف غلیظ ترین سیاسی مہم چلانے کی ہو ان کی سیاست اور ان کا رد عمل ہمیشہ مثالی رہا ہے۔ ہم  نے دیکھا کہ نواز شریف صاحب کے علاج کی خاطر بیرون ملک قیام کے دوران کس طرح ان کی کردار کشی کی کوشش کی گئی اور کس طرح ان کے مخالف سیاسی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ شرطیہ طور پر یہاں تک کہا جاتا رہا کہ وہ اب وطن واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن پھر ہم  نے دیکھا کہ وہ نا صرف وطن واپس آئے بلکہ ایک بہت بڑے جلسہ سے خطاب کے دوران انہوں نے جس گریس کا مظاہرہ کیا وہ بھی مثالی تھا۔

اس وقت میدان میں موجود سبھی سیاسی قائدین دیکھے بھالے اور آزمائے ہوئے ہیں۔ اگر ان کو انفرادی طور پر نمبر دیے جائیں تو یقینی طور پر سب سے زیادہ نمبر میاں نواز شریف ہی حاصل کریں گے کیونکہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے نعرے بازی، بڑھک بازی، دھمکیوں اور جھوٹے وعدوں کے برعکس عملی طور پر کچھ کر کے دکھایا ہے۔ بطور پاکستانی ہم سب کے لاشعور میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے عوام کی حمایت اور ووٹوں سے زیادہ ’بڑے گھر‘ کا آشیرباد ضروری ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن اگر موجودہ لاٹ میں سے ہی کسی کو وزیر اعظم بننا ہے تو بلاشبہ نواز شریف سے بہتر کوئی چوائس نہیں۔ اب اس صورتحال کو عملی جامہ کیسے پہنانا ہے یہ تو بادشاہ گر ہی جانیں لیکن وقت کی ضرورت یہی ہے کہ کسی ایسے شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے جوملک کی اقتصادیات، قانون کی عملداری اور بین الاقوامی روابط کو بڑھا سکے اور مہنگائی کے جن کو اگر بوتل میں نہیں بند کر سکتا تو کم از کم کنٹرول ضرور کرے۔

تبصرے بند ہیں.