نواز شریف کی مفاہمتی سیاست

64

نواز شریف کا استقبالیہ جلسہ مینار پاکستان میں ہو گیا۔ 4 سال بعد نواز شریف کی واپسی کا عوام  نے والہانہ استقبال کیا۔ جلسے کے انتظامات اچھے تھے پنڈال بھرنے کی سٹرٹیجی بھی اچھی تھی قیام و طعام کے بھی اچھے انتظامات تھے مسلم لیگ ن نے اچھا شو کیا مریم نواز شریف نے ایک بیٹی ہونے کے ناتے جلسے کو کامیاب کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ شہباز شریف نے اپنے اوپر اٹھنے والی انگلیاں توڑ موڑ دیں پرانے الزامات اور تنقیدیں برابر کر دکھائیں شہباز شریف فارم میں نظر آئے۔

دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ یہ جلسہ یا استقبال بے نظیر بھٹو کے استقبال جیسا نہیں ہے۔ بالکل درست ہے وہ بے نظیر بھٹو تھی ایک شہید وزیراعظم کی بیٹی، ایک مکمل اور تربیت یافتہ سیاست دان جو ضیاء الحق کے انتقام کی بھٹی سے تپ کر نکلی تھیں مارشل لا کی گھٹن کے دوران، آزادی کا ایک استعارہ تھیں ان کی واپسی کے سیاق و سباق نواز شریف کی واپسی سے مختلف تھے۔ نواز شریف کا استقبالیہ جلسہ، بے نظیر بھٹو کے استقبالیہ جلسے جیسا نہیں تھا۔ ہرگز نہیں تھا۔ دونوں کا موازنہ کرنا ہی غلط ہے۔ بے نظیر کے نام کے ساتھ بھٹو کا نام تھا بھٹو کی سیاسی وراثت تھی بھٹو کی پارٹی بھی وراثت میں ملی تھی نواز شریف کے ساتھ اسی کا نام ہے، اسی کی سیاست ہے، اسی کا ماضی ہے اور وہ اسی ماضی کے ساتھ، حال میں یہاں آیا ہے اور اسی حال سے روشن مستقبل کا استعارہ بن کر قوم کے سامنے آیا ہے لٹے پٹے پاکستان کے لئے امید سحر، نا امید اور مہنگائی کے ستائے عوام کے لئے ایک نوید سحر۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 2011 میں جس طرح عمران خان نے مینار پاکستان میں بھرپور جلسہ کیا تھا یہ جلسہ ویسا نہیں تھا۔ بالکل درست کہا گیا یہ جلسہ، عمران خان کے 2011 والے جلسے جیسا نہیں تھا۔ ہرگز نہیں تھا عمران خان کا جلسہ ایک منفی منصوبے کا نقطہ آغاز تھا اسے لیڈر بنایا جا رہا تھا۔ اس کی ساخت پرداخت کے لئے ادارے متحرک تھے ریاستی ادارے نواز شریف کے خلاف ایک لیڈر شپ تیار کرنے لگے تھے نواز شریف کو منظر سے ہٹانے، اس کی سیاست اور عوامی پذیرائی کو چیلنج کرنے کے لئے ایک دیو تیار کیا جانے لگا تھا اسلئے ضروری تھا کہ جلسہ بڑی شان و شوکت والا ہے اس کی عوامی پذیرائی کے غبارے میں خوب ہوا بھری جائے اور اسے اونچا اڑایا جائے جی ہاں وہ جلسہ عظیم تھا۔ اُس کا موازنہ نواز شریف کے استقبالیہ جلسے سے نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایک منفی سوچ، منفی منصوبے کی تکمیل کے لئے کیا جانے والا، بلکہ عمران خان کی گڈی چڑھانے کے لئے رچائے جانے والے جلسے کا نوازشریف کے استقبالیہ جلسے سے موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا ہے نواز شریف کا جلسہ کسی منفی سوچ یا منصوبے کا آغاز نہیں ہے بلکہ نواز شریف ایک امید کی کرن بن کر وطن واپس آیا ہے پاکستان کو پاؤں پر کھڑا کر نے کے لئے، پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے، ڈیفالٹ کی گئی عوامی معیشت کو ٹریک پر چڑھانے کے لئے آیا ہے، اس لئے اس جلسے کا کسی دوسرے جلسے سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔

پھر کہا گیا کہ ڈیل کر کے آیا ہے، تمام معاملات پہلے ہی طے کئے جا چکے ہیں۔ نواز شریف کو وزیراعظم بنانا طے پا چکا ہے باقی سب وقت کی بات ہے اور ایسے لگ بھی رہا ہے کہ جس طرح معاملات نواز شریف کے حق میں آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں جس طرح راستے کی رکاوٹیں ہٹتی نظر آ رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ معاملات شاید پہلے سے طے شدہ ہیں جس طرح نواز شریف کو آسمان سیاست سے ہٹانے کے لئے معاملات طے شدہ تھے اور نظر آ رہا تھا کہ فیصلے کیا ہوں گے جس طرح عدلیہ، انتظامیہ اور ریاستی ادارے ایک ہی سمت میں متحرک اور فعال نظر آ رہے تھے اور پھر بالآخر ایسا ہی ہوا۔ نواز شریف کو سیاست سے الگ کر دیا گیا۔ بالکل اب بھی ایسے ہی لگ رہا ہے کہ معاملات ایک خاص سمت میں چل رہے ہیں۔ سابقہ معاملات ریورس ہوتے نظر آ رہے ہیں پیش آئند واقعات و معاملات ایسے ہی کھل رہے ہیں جیسے سوچے جا رہے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ معاملات پہلے سے طے شدہ ہیں، شاید غلط نہیں ہو گا۔ لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا شاید درست نہیں کیونکہ جب بے نظیر صاحبہ جنرل مشرف کے ساتھ معاملات طے کر کے وطن واپس آئی تھیں تو مشرف کے ساتھ کی جانے والی خفیہ اور اعلانیہ مفاہمت کے بارے میں مصدقہ معلومات میڈیا میں چھپتی رہی تھیں۔ کہاں پر، کون کون ملا، کیا معاملات طے ہوئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نواز شریف کے معاملات بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہی ہو رہی ہیں۔ کوئی حتمی اور مصدقہ معلومات عوام کے سامنے نہیں لائی جا سکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما ٹیلی وژن پر کہتے پائے گئے کہ نواز شریف کو ڈیل کرکے نہیں آنا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان سے بندہ پوچھے آپ کی لیڈر کیا مشرف سے ڈیل کرکے وطن واپس تشریف نہیں لائی تھیں؟ نواز شریف تو سزا یافتہ ہیں۔ ضمانت پر علاج کرانے گئے تھے پھر انہیں اشتہاری بھی قرار دیا چکا ہے ایسے میں اگر وہ اپنی سیاست کاری اور حکمت عملی کے ذریعے واپس آ گئے ہیں تو کیا برا ہے۔ ہمیں دل بڑا کر کے اور کھلے دماغ کے ساتھ معاملات کو دیکھنا اور سمجھنا چاہئے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے معیشت گرداب میں پھنسی ہوئی ہے قومی معیشت ہچکولے لے رہی ہے عوام کی معیشت پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکی ہے، سیاست ٹکڑے ٹکڑے ہے قاسم کے ابوجی سیاست اور معاشرت میں نفرت کے جو بیج بو گئے ہیں وہ برگ وبار لا چکے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کانٹوں کو چنا جائے سیاست میں مفاہمت کو فروغ دیا جائے بالکل ایسے ہی جیسے آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر مفاہمتی ماحول پیدا کرنے کی کاوش کی تھی۔ زرداری صاحب تو مفاہمتی سیاست کے بادشاہ کہلاتے ہیں ایسے میں نواز شریف نے بھی اگر کہیں مفاہمت کر کے اپنے معاملات درست کرنے کی سعی کی ہے تو کیا برا کیا ہے۔ ہمیں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے ملک کو ایسے ہی ایک رہنما کی ضرورت ہے جو مفاہمت کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی تعمیر و ترقی کا ریکارڈ بھی رکھتا ہو۔ نواز شریف۔ ویلکم۔

تبصرے بند ہیں.