نواز شریف، سیاسی فاتح

65

بے رحم دل کی حماقتوں کے اسیر ہیں
تبھی سرنگوں ہیں ندامتوں کے اسیر ہیں
کبھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا بن کر اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچنے اور پھر ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن جانے والے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی کیا خوب گوناں گوں خصوصیات کے حامل ہیں۔ ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عوام کو برملا بتاتے رہے کہ ملک کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں ہیں، اسٹیبلشمنٹ انکی پشت پر ہے اور وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ اسی طاقت کے زیر اثر اپنے امریکہ کے دورے کے دوران انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ جیل میں قیدمسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف پر عرصہ حیات تنگ کردینگے اور ان سے اے سی سمیت تمام سہولیات واپس لے لیں گے۔ خیر انہوں نے یہ سہولیات کیا واپس لینا تھیں، آج نواز شریف ملک میں واپس آچکے ہیں اور عمران خان کو قیدو بند کی صعوبتوں اور سائفر کیس جیسے مقدمات کا سامنا ہے۔ رہے نواز شریف تو پاکستان واپس پہنچتے ہی مینار پاکستان پر ایک بھرپور جلسہ کرکے انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے تاہم پھر بھی مسلم لیگ کا ووٹ بینک آج بھی فعال ہے۔اس جلسہ میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی تقریر کافی پر اثر تھی۔ اس دوران جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ ن کے کارکن مکمل چارج اور نواز شریف کی تقریر کے دوران نعروں سے بھرپور جواب دیتے نظر آئے۔ نواز شریف کی تقریر سے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ اگلے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں اور جلسے میں اپنی پارٹی کا منشور اور آئندہ بننے والی حکومت کی پالیسی کے بارے میں بتارہے ہیں۔ جلسہ کے دوران نواز شریف کی جانب سے فلسطین کا جھنڈا لہرانا اور کشمیر ایشو پر بھارت کو واضح پیغام دینا قابل ستائش ہے۔ جلسہ کی ابتدا قومی ترانہ، تلاوت قران پاک اور نعت شریف سے کرنا بھی معاشرتی اور مذہبی روایات کی پاسداری کی غمازی کرتا ہے۔ ایسے میں نواز شریف کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ انتقام کی سیاست نہیں کرینگے یقیناً عمران خان کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ قانونی طریقے سے وہ کچھ ہونے جارہا ہے جس کی ذمہ داری مستقبل قریب میں نواز شریف اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔ نواز شریف نے جہاں اپنے خطاب میں بڑے طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کوپیغام دیا تو وہاں بجلی کے بل ہاتھ میں پکڑ کر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ تاہم وہ باوجود کوشش کے بھی 16ماہ کی شہباز شریف کی حکومت کو ہونے والی ناقابل نظیر مہنگائی کہ ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دلا سکے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ وہ اپنے خلاف درج تمام مقدمات کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اسکے نتیجہ میں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے میں کامیاب رہیں گے۔

یقیناً جیل کی سلاخوں کے پیچھے اقتدار کی یاد انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی ہو گی۔ نہ صرف اب انکا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے بلکہ انکی پارٹی کا حال بھی کچھ ایسا ہے کہ جیسے تیز ہوا تنکوں کو اُڑا کر لے جاتی ہے۔ تاہم پھر بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں اور کچھ بچ جانے والے لیڈروں کا خیال ہے کہ الیکشن میں وہ کوئی معجزہ ضرور دکھائیں گے۔ گویا

جو شاخ ٹوٹتی ہے، لچکتی ضرور ہے
بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے

قبل ازیں عمران خان کاکہنا تھا کہ جو بھی ان چوروں کو این آر او دے رہا ہے وہ اس ملک کا غدار ہے، اگر مجھ پر مقدمات بنائے اور جیلوں میں ڈالا تو میں زیادہ زور سے مقابلہ کرونگا۔ اس سے قبل وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے یقیناً انکا اشارہ کس کی جانب ہے، جاننا یا سمجھنا زیادہ مشکل تو نہیں۔ وہ جنہیں کہہ رہے، وہ بھی جانتے ہیں اور جن سے کہہ رہے ہیں، وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ وہ کس سے نالاں ہیں۔ پہلا این آر او کس نے دیا تھا اور دینے والے کی پشت پر کونسا ادارہ موجود تھا؟ بھلا یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے۔ یقینا آپ بھی سمجھ چکے ہونگے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو اور ڈیزل جیسے خطابات سے نواز نے کے بعد نیوٹرل کو پہلے جانور اور اب اسے ملک کا غدار جیسے القابات سے نواز نے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرر ہے تھے۔ رہی مقابلہ کرنے کی بات تو کچھ عرصہ قبل ایک جج کے خلاف بیان دینے کے بعد جس طرح وہ توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے لئے معافی مانگنے انکے دفتر پہنچے، اس نے انکی بہادری کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ صحیح کہتے ہیں کہ بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جس کو اپنی زبان پر کنٹرول ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ اسے کس وقت کیا کہنا ہے۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے کسی غلط اور غیر ذمہ دارانہ بیان سے معاشرے میں کیا انتشار پھیل سکتا ہے۔ لاکھوں گھروں سے لیکر کروڑوں نوکریوں تک کے جھانسے کے بعد عوام کو امریکی سازش کا چورن بیچنے تک عمران خان نے جس طرح یو ٹرن پر یوٹرن لیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ وہ تو بھلا ہو آڈیو لیکس کا جس سے عوام میں یہ عقدہ کھلا کہ امریکی سازش امریکہ میں نہیں بلکہ خود وزیر اعظم ہاؤس پاکستان میں تیار ہوئی اور تیار کرنے والوں میں مبینہ طو ر پر خود اس وقت کے وزیر اعظم اور انکے رفقا ملوث ہیں۔ گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی سعی میں جس طرح ملکی مفادات کو داؤ پر لگایا گیا وہ بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ کیس اور سب سے بڑھ کر آڈیو لیکس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ عمران خان اور انکے قریبی رفقا اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.