جدہ میں دوپہر کے کھانے کے بعد گفتگو کے دوران بیگم کلثوم نواز چند ثانئے خاموشی کے بعد گویا ہوئیں، ”بخاری بھائی، مجھے لگتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں“ اس موقع پر موجود کیپٹن صفدر، مریم نوز اور اس عاجز نے قیاس کے گھوڑے دوڑائے مگر بیگم صاحبہ کے چہرے کے تاثرات نے عدم اتفاق پر مہر لگا دی۔ سوچتا ہوں برسوں پہلے یقین میں گوندھے جس خیال نے بیگم کلثوم نواز کے ذہن پر دستک دی تھی، برسوں بعد عاقبت نا اندیشیوں، نا اہلیوں اور بغض و عناد کی باد سموم سے شاداب و کامران پاکستان کے نخلستان کو بدحالی، مہنگائی اور بیروزگاری کی خزاں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا نواز شریف کا لاہور کے تاریخی استقبالی جلسے میں ”انتقام نہیں تعمیر“کا اعلان کیا اس دستک کی گونج ہے۔ کیا یہی وہ کام ہے مشیعت ایزدی کے ساتھ جو ہم (نواز شریف) سے لیا جانا ہے۔
چار سال ہوئے ہیں سندھ میں مقیم ہوں۔ زیادہ عرصہ کراچی اور حیدر آباد میں بسر ہوا۔ کچھ مہربانوں کے طفیل اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں تک رسائی رہی۔ ان علاقوں میں ن لیگ کیلئے پذیرائی کی جو جھلک نظر آئی اس کا برملا اظہار اس وقت ہوا جب کراچی اور اندرون سندھ سے نواز شریف کے استقبال کیلئے جانے والوں کو سمیٹنے کیلئے دو ٹرینوں کا دامن تنگ ہوگیا جگہ نہ ملنے والے احتجاجاً ٹریک پر لیٹ گئے۔ محمد زبیر، نہال ہاشمی، بشیر میمن اور دیگر رہنماؤں نے بمشکل سمجھایا کہ ریلوے کی جانب سے مزید ٹرین نہیں دی جا رہی۔ محمد زبیر نے کہا ”پتہ ہوتا اتنے لوگ آجائیں گے تو ایک دو ٹرینیں اور بک کروالیتے“۔ تاہم اس جوش و خروش کا حقیقی اظہار آئندہ عام انتخابات میں ہوگا۔ ساتھ ہی ن لیگ کی قیادت اس پذیرائی کو سندھ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو راستہ دینے کی حکمت عملی ن لیگ کے لیڈروں، کارکنوں اور حامیوں کو مایوسی کا شکار کرتی رہی ہے۔ ان سے گفتگو میں اس حوالے سے خدشات اور قدرے بے یقینی سی محسوس ہوئی ہے۔
ویسے ن لیگ کو بالخصوص کراچی میں دھڑے بندیوں کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ کارساز میں واقع پارٹی کا صوبائی دفتر پورے صوبے میں تنظیمی سرگرمیوں کو منظم وفعال کرنے میں کوئی کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔ البتہ ضرورت پڑنے پرہر دھڑے کو اجتماع کرنے کی سہولت ضرور فراہم کرتا ہے۔، محمد زبیر، نہال ہاشمی، افنان اللہ خان، کمیل داس کوہستانی علی اکبر گجراور دیگر بڑی ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بعض ن لیگی افراد کے مطابق صوبائی صدر شاہ محمد شاہ سب کیلئے قابل قبول کی پوزیشن حاصل نہیں کرسکے۔ جہاں تک پارٹی میں چھوٹے بڑے گروپوں کا تعلق ہے اپنے طور پر ان کی پارٹی کیلئے وفاداری مشکوک نہیں ہے لیکن منقسم صورت جماعت کے وسیع تر مفاد کے تحفظ کی ضمانت بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر ن لیگ سندھ میں عوامی سطح پر موجود جتنی بھی حمایت ہے اسے اپنی سیاسی قوت میں بدلنا چاہتی ہے تو بطور چیف آرگنائزر مریم نواز کو سب سے پہلے پارٹی کو حقیقی تنظیمی رنگ دینے پر توجہ دینی ہوگی۔
ن لیگ کے ذرائع کے مطابق نومبر میں کسی وقت میاں نواز شریف سے پہلے مریم نواز کا سندھ کا دورہ متوقع ہے۔ ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن پارٹی میں اچھا اضافہ ہیں وہ اگرچہ فوج سے بہت کم تاہم ایک ڈسپلنڈ فورس کے سربراہ رہے ہیں۔ دیکھنا ہے وہ اپنے اس تجربے کو پارٹی کو منظم کرنے میں کس حد تک بروئے کار لا سکیں گے۔ ن لیگ کے بہت سے کارکن جو صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر پارٹی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں ان کی ایک مثال گلشن حدید کے کارکن شوکت علی جٹ کی ہے۔ دہشت گردی ایک مسجد کی دیوار گرانے سمیت بارہ مقدمات کے باوجود اس کے پایہ عزم میں لغزش نہیں آئی۔ سندھ بھر میں موجود ایسے کارکنوں کی جانب نظرالتفات اور انہییں مقامی سطح پر ذمہ داریاں سونپ کر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ن لیگ میں گروپنگ کے علاوہ جو بطور خاص مریم نواز کی توجہ کا مرکز بننا چاہیے وہ فعال اور موئثر میڈیا سیل ہے۔ سندھ میں اسے پنجاب کی طرح منظم ہونا چاہیے جو عوامی توجہ و حمایت حاصل کرنے کا مو ئثر ذریعہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی اثر پذیری اپنی جگہ لیکن ایک مخصوص وقت میں ٹی وی پروگرام دیکھنا بہت سوں کیلئے ممکن نہیں ہوتا جبکہ اخبارات میں سفر کے دوران، طویل لوڈ شیڈنگ کے لمحات میں یا رات، دن کے کسی بھی وقت خبر، تبصرہ یا کالم پڑھا جا سکتا ہے۔ اس لئے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ بشیر میمن بے شک ایک اچھا اضافہ ہے لیکن آنے والے دنوں میں ان کی سیاسی کارکردگی جہاں ذاتی وجماعتی سیاسی پیش رفت کی بنیاد بنے گی وہاں فعال میڈیا سیل ہی ان کا دیگر قائدین کا مو ئثر ہتھیار ہو سکتا ہے۔ بعض سندھی مہربانوں کے ساتھ کراچی سے بدین تک سفر کا موقع ملا۔ دھابیجی، گھگھر، گھارو (یہ پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو کا حلقہ ہے)، مکلی، ٹھٹھہ، جھرک، جاڑے، رتاوا، ہلڑی شاہ کریم، ابڑو، سجاول سے بدین تک جہاں آصف زرداری، فریال تالپور اور بلاول اور مقامی لیڈروں کی تصاویر والے بینرز، پوسٹرز اسی طرح مولانا فضل الرحمن، مولانا راشد سومرو اور مقامی لیڈروں کی تصاویر والے بینرز اور پوسٹرز خاصی تعداد میں نظر آئے وہاں میاں نواز شریف، مریم نواز کی تصاویر کے ساتھ مقامی کارکنوں کی تصاویر والے بینرز اور پوسٹرزدیکھ کر تعجب اس لئے ہوا کہ ن لیگ کی قیادت نے ان علاقوں کی جانب کبھی سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی۔ چنانچہ یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر ان علاقوں میں لاڑکانہ سمیت ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام مشترکہ انتخابی حکمت عملی بنا سکیں و پیپلزپارٹی کا قابل ذکر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ مقامات پر ن لیگ کے جھنڈے بھی نظر آئے۔ اس کا مطلب ہے اندرون سندھ ن لیگ کیلئے پذیرائی کی کچھ فضا ضرور موجود ہے۔ جسے ن لیگ سندھ کے قائدین وسعت نہیں دے سکے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز اپنی سرگرمیوں کا دائرہ اندرون سندھ بڑھا سکیں تو مسلسل عدم رابطوں کے باوجود ن لیگ کا پرچم تھامے لوگوں میں نیا جوش وولولہ پیدا نہیں ہوگا بلکہ سندھ میں صوبائی لیڈروں میں بھی تحرک پیدا ہو گی اور وہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر سے نکل کر اندرون سندھ بھی توجہ مبذول کر سکیں گے۔
آئندہ انتخابات جب بھی ہوں گے ن لیگ اور پیپلز پارٹی مد مقابل ہوں گے۔چنانچہ ن لیگ کے خلاف سیاسی حکمت عملی کے طور پر نواز شریف کی واپسی ”اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل“ کا بیانیہ بنایا لیا ہے جسے فی الحال نرم انداز سے آگے بڑھایا جا رہا ہے جو آنے والے وقت میں شدت اختیار کرے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا یہ دعوی’مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے پیچھے کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے، پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کر رہی ہے تو سمجھیں واقعی کچھ تو ہے‘ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا ”نواز شریف کو کہہ رہا ہوں، کیا کر رہے ہیں۔ پھر غلطی کرنا چاہ رہے ہیں۔ خود کو اتنا نمایاں نہ کرو کہ لوگ کہیں کہ کسی کے کندھے پر سوار ہو کر آرہے ہو۔ یہ خطرناک ٹریپ ہے جس میں مسلم لیگ پھنس رہی ہے۔ آپ میں اور عمران خان میں کیا فرق رہ گیا۔ آپ بھی تو ویسے ہی آرہے ہو۔“
ظاہر ہے پیپلز پارٹی نے ن لیگ کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ اس کے خلاف بیانیہ تو بنائے گی۔ اب دیکھنا ہے ن لیگ اس کا کیا توڑ کرے گی یا پیپلز پارٹی کیلئے سرگرم میڈیا دانشوروں کی خواہش کے مطابق اس بیانیہ کی تاب نہ لا کر سندھ پھر پیپلز پارٹی کے حوالے کرنے میں سہولت محسوس کرے گی۔ ویسے ان کی جانب سے ملک کو موجودہ مشکلات سے نکالنا کسی ایک کے بس میں نہیں ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلو کا ہانکا نواز شریف کو گھیر اس طرف لانے کی حکمت عملی ہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ووٹ نہ دیتی تو شہباز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے لیکن وہ یہ حقیقت بھی تو تسلیم کریں کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم نہ بنتے تو بلاول زرداری کیلئے وزیر خارجہ بن کر سرکاری خرچے پر ساری دنیا میں سیر سپاٹا بھی ممکن نہیں تھا۔
تبصرے بند ہیں.