دو ہفتے قبل حماس اسرائیل جنگ کے دوران بے شمار نہتے اور بے قصور ضعیف، عورتیں اور بچے اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق 4 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید جبکہ 1400 سے زائد اسرائیلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف غزہ کی پٹی میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنانے کے دوران 500 سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں مریض عورتیں، بچے، ان کے لواحقین اور طبی عملے شامل ہیں۔ اس قسم کی خونی جنگ فلسطین میں پہلی بار نہیں ہوئی۔ 1948 میں بھی اسرائیل نے اسی طرح تقریباً 3000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ 1956 میں دس اسرائیلی بمبار طیاروں نے فلسطین کے ایک چھوٹے سے گاؤں پر فضائی حملہ کیا جس میں تقریباً ایک سو لوگ مارے گئے۔ 1970 میں اسرائیلیوں نے مصر کے ایک چھوٹے سے پرائمری سکول پرحملہ کیا جس میں پچاس طالبعلم مارے گئے۔ 1982 میں صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں پر بربریت کی گئی اور 3500 کیمپ نشینوں کا قتل عام ہوا۔ 1988 میں مسجد الاقصیٰ میں فوجی کارروائی کر کے درجنوں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ ان سارے حقائق کے ہونے کے باوجود امریکی اور کینیڈین انتظامیہ فلسطینیوں کو کس طرح دہشت گرد قرار دے رہے ہیں؟ شروع شروع میں امریکہ اور مغرب میں یک طرفہ طور پر اسرائیلیوں کو ہی مظلوم قرار دیا جا رہا تھا مگر اب دھیرے دھیرے لوگوں کو حقائق کا علم ہو رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بھی مغرب کے عام لوگ فلسطینیوں ہی کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ فلسطین کی اس سرزمین پر یہودی کیسے آ گئے؟ اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودی بے گھر ہو گئے تھے۔ یورپ اور برطانیہ یہ سمجھتے تھے کہ فلسطینیوں کے پاس ان کی ضرورت سے زائد زمینیں ہیں۔ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو ذمہ داری دی کہ وہ فلسطینی علاقے کا کنٹرول سنبھال لے اس لیے کہ پہلے فلسطینی علاقے مصر اور اردن کے زیر انتظام تھے۔ چونکہ جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو بسانے کیلئے جگہ کی تلاش تھی عرب ممالک اس کیلئے تیار نہیں تھے۔ مگر عالمی دباؤ کے تحت یہودیوں کو لا کر فلسطینی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بھی قائم کی جاتی رہی ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اس قضیے کا کیا حل نکل سکتا ہے؟ امریکہ سمیت بیشتر ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ دو الگ الگ ریاستیں بن جائیں؟ مگر اسرائیل اس پر آمادہ نہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ کہا جاتا ہے کہ مسلسل اسرائیلیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر غزہ کی منتظم حماس نے آخری معرکہ کرنے کا طے کر لیا۔ یعنی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسرائیل پر اس طرح حملہ کیا کہ دنیا بھر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اسرائیل دو دنوں کے بعد جب سنبھلا تو اس وقت تک ان کا خاصا نقصان ہو گیا تھا۔ اس نے جوابی حملہ شروع کیا تو اب تک رک نہیں سکا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کردیا کہ وہ ایک ہلاک شدہ اسرائیلی کا بدلہ بیس فلسطینی مار کر لے گا، اس کی یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ حماس کو اچانک اس حملے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا اس نے اتنی طاقت مجتمع کر لی تھی کہ اسرائیل کے شدید رد عمل کا مقابلہ کر لیتی؟ یقینا ایسا نہیں تھا کیونکہ حماس کے پاس ٹینک اور نہ بمبار طیارے۔ پھر مقابلے کی کیا تیاری تھی؟ اگر اسے دوسرے برادر ممالک سے مدد کی توقع تھی تو اب وہ کہاں ہیں؟ ان میں وہ بھی ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کیے بیٹھے ہیں اور وہ بھی جو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کو بھی تیار ہیں؟ لگتا بھی ہے اور امریکہ کا یہ الزام بھی ہے کہ چونکہ متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات شروع کر بھی چکے ہیں۔ اس لیے حماس نے ان کوششوں کو روکنے کے لیے جنگ کا آغاز کیا؟ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود آپس میں لڑے ہوئے ہیں۔ فلسطینی دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مغربی کنارہ کا کنٹرول الفتح کے پاس ہے جس کے سربراہ محمود عباس ہیں جنہیں فلسطین کا صدر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گروپ گفت و شنید سے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد چاہتا ہے جبکہ حماس اس مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے نکالنا چاہتی ہے۔ اس کے پشت پر لبنان کی حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کے ممکنہ حملے کے خوف سے ہی امریکہ نے اپنا بحری بیڑا اس خطے میں پہنچا دیا ہے تاکہ حزب اللہ اور ایران اس جنگ میں کودنے سے اجتناب کریں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر حملے روک نہیں رہا بلکہ علانیہ غزہ کے لوگوں کا پانی اور بجلی بند کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کا کنٹرول سنبھال کر محمود عباس کو منتظم بنا دیا جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بہت پہلے جب اسرائیل الفتح سے پریشان تھا تو کہا جاتا کہ اسرائیل ہی نے حماس کو بنوایا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس غزہ کے باشندوں کی منتخب نمائندہ جماعت ہے جبکہ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ حماس فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ بات تو طے ہے کہ مسلم ممالک میں سے کوئی اتنا بے خوف نہیں کہ اسرائیل اور حماس سے ٹکرائے اسی لیے اکثر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے مراحل میں ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا ایک اجلاس ہوا جس میں قرارداد ہی منظور کی گئی۔ ایک تو بہت بے دلی سے یہ اجلاس منعقد ہوا کیونکہ ہنگامی اجلاس ایک ہفتے سے بھی زیادہ دن میں منعقد ہوا۔ ورنہ اسلامی تنظیم کا ایک وفد صدر بائیڈن سے ملنے جا سکتا تھا اور اس وفد میں متحرک مسلم ملکوں کے سربراہان بھی ہو سکتے تھے۔ جن مسلم ممالک نے پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے وہ علامتی طور پر ہی سہی اپنے سفیروں کو احتجاجاً واپس بلا سکتے تھے۔ کچھ تو دباؤ اسرائیل پر بڑھتا۔ مگر لگتا ہے مسلم ممالک بہت بے دلی سے غزہ پر اسرائیلی حملے کی صرف مذمت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں خصوصاً امریکہ اور یورپ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں جو ہونی بھی چاہئیں مگر ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں نیٹو کی فوجوں کی جنگوں کے خلاف بھی امریکہ اور یورپ میں بڑی بڑی ریلیاں نکلیں مگر ان کا اثر امریکی اور اتحادی ملکوں پر کچھ نہیں پڑا، اسی لیے اکثر لوگ اب دعائیں ہی کر رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.