باوجود اس کے کہ 92ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت قوم کی دعاؤں کے ساتھ پوری ٹیم کی اجتماعی کاوش تھی۔ عمران خان وہ خوش قسمت شخص ہیں کہ قوم نے اس ورلڈ کپ کی جیت کا تمام تر کریڈٹ اُن کی جھولی میں ڈال دیا۔ حالانکہ اس ٹورنامنٹ میں اگر ٹیم میں شامل جاوید میانداد، وسیم اکرم، انضمام الحق، رمیض راجہ، عاقب جاوید، عامر سہیل اور مشتاق احمد جیسے دیگر کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کا موازنہ عمران خان کی کارکردگی سے کیا جائے تو سوائے ایک آدھ میچ کے کپتان اپنے کھلاڑیوں سے بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس ورلڈ کپ میں بھارت سے ہارنے والے میچ میں بھی باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں شعبوں میں عمران خان کی انفرادی کارکردگی بالکل صفر تھی۔ مگر اس کے باوجود قدرت کی مہربانی اور دیگر کھلاڑیوں کی اعلیٰ کارکردگی سے ورلڈ کپ جیتنے کے صلے میں قوم نے عمران خان کو قومی ہیرو کا درجہ دے کر شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیا۔ ورلڈ کپ کی جیت کے بعد شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا قیام عمران خان کے دو ایسے کارنامے تھے جس نے اسے قوم کی نظروں میں ہیرو سے سُپر ہیرو بنا دیا۔ مگر پھر قوم کے ساتھ ہاتھ ہو گیا اور قوم کا یہ ہیرو خود پسندی کا شکار ہو کر اچھے خاصے فلاحی کاموں کو چھوڑ کے ”نامعلوم مہربانوں“ کے بہکاوے میں آ کر پہلے سیاست اور پھر ”ڈرٹی پالیٹکس“ کا حصہ بن گیا۔ بلاشبہ اصولی سیاست ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے عوام کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے لیکن اخلاقیات سے عاری جھوٹ، مکر اور فریب پر مبنی سیاست جس کا مقصد محض طاقت اور اقتدار کا حصول ہو کسی بھی ملک اور قوم کے لیے ناسور سے کم نہیں ہے۔ حضرت علیؓ سے منسوب قول طاقت اور اختیار ملنے سے لوگ تبدیل نہیں آشکار ہوتے ہیں، کی روشنی میں مدینے کی ریاست بنانے کے دعویدار عمران خان کے عمل کو اقتدار ملنے کے بعد دیکھیں تو ان کے کردار کا دوغلا پن پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ وہ عمران خان جس کو قوم نے اپنے سر کا تاج بنایا تھا اس نے اقتدار کی ہوس اور پھر اسے دوام دینے کے لیے جھوٹ، مکر، فریب اور گالی گلوچ کی مدد سے جس طرح نوجوان نسل کو گمراہ کر کے پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ملکی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ سیاست میں عمران خان کی آمد سے پہلے بھی سیاست دانوں اور ان کے ماننے والوں میں نقطہ نظر کا اختلاف ہوتا تھا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا مگر اپنے زہریلے پراپیگنڈے سے مخالف سیاستدانوں اور اداروں کے لیے نفرت اور عدم برداشت کے جو بیج نئی نسل کے کچے ذہنوں میں عمران خان نے بوئے ہیں اس کے بد اثرات شاید ایک عرصے تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ ملک کی ترقی اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواہاں کوئی بھی محب وطن پاکستانی خواہ اس کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے براہ راست تعلق نہ ہو وہ پاکستان کے سیاسی و غیر سیاسی معاملات سے کسی طرح بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی مخالف سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے خلاف عمرانی ٹولے کے گمراہ کن پراپیگنڈے کے باوجود الحمد للہ آج بھی پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جوسچ اور جھوٹ کے فرق کو ناصرف سمجھتے ہیں بلکہ حق اور سچ کے ساتھ پوری قوت سے کھڑے بھی ہیں۔ 9 مئی کے بدترین واقعات اور سازش کی ناکامی کے بعد آج جب کہ شیخ رشید سمیت تحریک انصاف کے وہ تمام بڑے بڑے لیڈر جو عمران خان کی ہمنوائی میں اداروں اور مخالف سیاستدانوں کے خلاف نفرت اور شر انگیز بیانیہ بنانے میں پیش پیش تھے، ”چلوں“ کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور اُن کے اقدامات سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کر کے اپنے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگ رہے ہیں۔ ان کے ہمدردوں اور سفارشیوں میں ہمارے کچھ کالم نگار اور سیاسی دانشور بھی شامل ہیں جو ملک اور قوم کے ”وسیع تر مفاد“ میں انہیں عام معافی دینے کے حق میں مفت کے مشورے دے رہے ہیں۔ جبکہ میرے جیسے ملک کے عام شہریوں کا یہ موقف ہے کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں 9 مئی کے مجرمانہ واقعات میں ملوث اس کے مرکزی کرداروں کو کسی مصلحت کے بغیر قانون کے مطابق سزا دینا بہت ضروری ہے تاکہ ان قومی مجرموں کو عبرت کی مثال بنا کے آئندہ کے لیے اس قسم کے ناخوشگوار واقعات سے بچ کر ملک کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ ہفتے کی شام مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف ایک بڑے سیاسی لیڈر کے طور پر مینار پاکستان کے سائے تلے ملک بھر سے آئے ہوئے مسلم لیگی کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے بھرپور اور والہانہ استقبال سے ایک بار پھر ملک میں واپس آ چکے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قدرت میاں صاحب پر خصوصی مہربان ہے اس لیے وہ ہر بار اپنے مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنا کر تمام آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکل آتے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ اب تک کے بیتے ہوئے غیر معمولی واقعات بھی یقینا اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قدرت میاں صاحب پر واقعی مہربان ہے۔ لیکن اس کے لیے میاں صاحب کو جن صعوبتوں، پریشانیوں اور دکھوں سے گزرنا پڑا ہے اس کی الگ تاریخ ہے۔ مگر ان سب مشکلات کے باوجود ان کے کریڈٹ پر 28 مئی کے ایٹمی دھماکے، ملک میں موٹر وے کا جال بچھانے، اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس جیسے عوامی منصوبوں کے قیام،آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے کے ساتھ ملک میں ترقیاتی کاموں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ یقینا یہی وجہ ہے کہ قدرت کے ساتھ ساتھ اُن کے چاہنے والے بھی اُن کو بار بار ملک اور قوم کی خدمت کا موقع دے کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کے معاشی و سیاسی حالات جس گرداب میں ہیں اس سے نکلنے کے لیے قوم ایک بار پھر نجات دہندہ کے طور پر میاں صاحب کی طرف دیکھ رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ ایک غیر جانبدار الیکشن کے نتیجے میں میاں صاحب وزیر اعظم منتخب ہو کر ایک بار پھر ملک کو درپیش مشکلات سے نکالیں گے۔ دعا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے اس سفر میں اللہ تعالیٰ میاں صاحب کا حامی و مدد گار ہو۔
تبصرے بند ہیں.