کچھ خارجی عوامل بظاہر ایک دوسرے سے منسلک نہیں ہوتے لیکن ان کے بارے میں آپس میں لنک بنا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف کچھ دیگر عوامل عموماً باہم وابستہ ہوتے ہیں مگر انہیں ڈی۔ لنک کر دیا جاتا ہے۔ سیاست اور سفارش کاری میں علم ریاضی یا Mathematics والی معروفیت نہیں ہوتی لہٰذا ایسے موقع پر ہر طبقہ اس سے اپنے پسندیدہ نتائج اخذ کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ایک بین الاقوامی امریکی جریدے کو کہہ رہے تھے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ انتہا پسند عناصر اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والی ریاستیں اگر آپس میں ایک گٹھ جوڑ یا NEXUS بنا لیں تو عالمی دنیا کے لئے یہ تباہ کن ہوگا اس موقع پر اس نے پہلے نمبر پر ایران اور دوسرے نمبر پر پاکستان کا واضح ذکر کیا۔ اب اس بیان پر رائے زنی سے قطع نظریہ محض حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہیں کہ جس وقت نیتن یاہو یہ بات کر رہے تھے پاکستان میں تحریک لبیک پاکستان کے مولانا سعد رضوی صاحب پاکستان کے آرمی چیف سے براہ راست مخاطب ہو کر فرما رہے تھے کہ ہمیں اب فلسطین پر آپ کی زبانی اور اخلاقی حمایت نہیں چاہیے بس آپ ایٹم بم ہمیں دے دیں۔
مذکورہ بالا دونوں صورتوں پر غور و فکر کر نا ہم آپ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ آپ خود فیصلہ کریں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب آپ پر بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں واجب ہیں تو آپ اس طرح کا کوئی کام کیسے کر سکتے ہیں۔ اگر اسرائیل پر ایٹم بم مارنا یا اس کی زمین کے اندر گھس جانا یہ سب اتنا سیدھا یا سادہ ہوتا تو پھر یہ کام کرنے سے پہلے ایسا سوچنے والے کشمیر کا رخ کیوں نہیں کرتے جہاں جانا اسرائیل جانے سے آسان بھی ہے قریب تر بھی ہے اور وہاں زبان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں اور کشمیریوں کا ہم پر حق سب سے مقدم بھی ہے مگر بوجوہ جب تم یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر وہ کیسے کریں گے۔ اس طرح کے زبانی کلامی بیانات پاکستان کیلئے سفارتی مشکلات پیدا کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔
فلسطین میں غزہ کے محاصرے کے بعد پاکستان میں راتوں رات نیا Trend اٹھ کھڑا ہوا ہے ہر ایک گروپ نے چندا جمع کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور عوام سے امداد کی اپیلیں کی جا رہی ہیں کیا اس کیلئے حکومت پاکستانی سے اجازت لی گئی ہے کیا یہ امداد کا طریقہ شفاف ہے؟ کیا یہ امداد وہاں تک پہنچ سکتی ہے غزہ میں امداد کا ایک ہی راستہ سے جو مصر سے الرفاہ بارڈر سے غزہ میں داخل ہوتا ہے جو ابھی تک امداد کیلئے نہیں کھولا گیا بلکہ اقوام متحدہ کی بھیجی ہوئی خوراک اور ادویات بھی وہاں پھنسی ہوئی ہیں ان حالات میں ہمارے گلی محلوں سے اکٹھا کیا جانے والا چندا کہاں پہنچ پائے گا اور سب سے بڑھ کر ہے کہ چندا جمع کرنے والوں کی اپنی ساکھ کیا ہے۔
جہاں تک پاکستان جیسا ملک جو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اس کے لیے بہترین راستہ بقول شاعر یہی ہے کہ
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اس وقت پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے غربت اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گداگری میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شاہراہوں اور چوراہوں پر فقیروں کی بھر مار ہوچکی ہے جس سے ہر چوک پر ٹریفک کیلئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اس کے سماجی مسائل الگ ہیں جو راستوں کی رکاوٹ سے کہیں زیادہ گمبھیر ہیں اسی طرح ملک میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سو شیواکنا مک ڈھانچہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ روزگار کے مواقع سکڑ جانے سے حالات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان جیسے ملک کیلئے فلسطین کی اخلاقی حمایت سے زیادہ کچھ کرنا ممکن نہیں رہا۔ یاد رہے کہ فلسطینیوں کو بشری امداد کی ضرورت نہیں ان کے پاس افرادی قوت موجود ہے انہیں یا تو سفارتی امداد چاہئے یا انہیں مالی امداد چاہیے تا کہ وہ تباہ حال آبادیوں کو دوبارہ آباد کر سکیں۔
پاکستان میں اس وقت ویسے بھی نگران حکومت قائم ہے آئینی طور پر پارلیمنٹ کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایک خلا پایا جاتا ہے یاد رہے کہ جب 2015ء میں یمن سعودی جنگ کے آغاز پر سعودیہ عرب نے فوجی امداد کی درخواست کی تو پاکستان نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا تھا جسے اتفاق رائے سے نا منظور کر دیا گیا تھا۔ حالات اب بھی وہی ہیں۔
پاکستان کو اس وقت سمندر پار ایڈونچر کے بجائے خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی ضرورت ہے آئی ایم ایف کی دیوالیہ پن کی تلوار اب بھی سر پر لٹک رہی ہے ملک کو آئی ایم ایف کی اگلی تین ارب ڈالر کی قسط کا انتظار ہے۔ فلسطین کی مدد کیلئے سعودی عرب قطر امارات جیسے امیر ممالک موجود میں مگر وہاں اتنی بے چینی دیکھنے میں نہیں آئی جتنی پاکستان میں نظر آرہی ہے حالانکہ عملاً یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں کر کے قومی امور سے توجہ ہٹانے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ڈالر ریٹ 30 روپے سے بھی کم ہوا لیکن بنیادی اشیاء کی قیمت کم نہ ہوئیں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے کی تاریخی کمی آئی لیکن نہ تو کرائے اس نسبت سے کم کیے گئے نہ سبزی اور فروٹ کی قیمتیں کم ہو سکیں اسی طرح عالمی مارکیٹ میں کوکنگ آئل اور گھی کافی سستے ہو گئے پاکستان میں گھی 100روپے کم ہونا چاہئے تھا مگر صرف 38 روپے کم کئے گئے کیونکہ ملک میں سرکاری قیمتوں کو نافذ کرنے کا نظام موجود ہی نہیں ہے۔ فلسطین کی فکر سب کو ہے مگر اپنی فکر کسی کو نہیں محض ریلیاں نکال کر یا مسجدوں میں اعلانات کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو جائے گا اگر ایسا ہونا ہوتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو جاتا۔
تبصرے بند ہیں.