گزشتہ صدی کی اَسّی کی دہائی میں افغان جہاد یا روس کے خلاف افغان مزاحمت جاری رہی۔ اس کو جہاں پاکستان کی مکمل حمایت اور سر پرستی حاصل رہی۔ وہاں میری طرح کے لوگوں کی افغانوں سے عقیدت اور رومانس میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران کئی بار ایسا ہوا کہ ہم چند احباب پشاور اور باڑہ کا چکر اس خیال سے لگاتے تھے کہ پشاور میں تِکے کباب اور کڑاہی گوشت کھانے کے ساتھ ہمیں نوشہرہ کے قریب ازاخیل اور پشاور میں ناصر باغ کے میلوں میں پھیلے افغان مہاجر کیمپوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔
افغانی خواہ وہ گلبدین حکمت یار، پروفیسر برہان الدین ربانی، استاد عبدالرب رسول سیاف جیسے جہادی لیڈر ہوں روسیوں کے خلاف جہاد (مزاحمت) میں شریک ان کے پیروکار ہوں یا نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے افغان مہاجرین ہوں وہ سب ہمارے لیے عقیدت اور محبت کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ روسی فوجوں کے خلاف ان کی مسلح مزاحمت میں ہمیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے کفر کی طاقتوں کے خلاف جہاد اور جذبہ جہاد کی جھلک نظر آتی تھی۔ یہ کیا شائد غلط نہ ہو کہ پاکستان کے حکمرانوں، جرنیلوں، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور صحافیوں سمیت پوری قوم افغانیوں کے لیے گرم جوشی اور خیر سگالی کے اظہار میں پوری طرح شریک تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کے بڑے جہادی لیڈروں نے جہاں پشاور اور گرد و نواح میں اپنے مراکز قائم کر رکھے تھے۔ وہاں نمایاں افغان رہنماؤں نے اسلام آباد میں بھی بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے خرید کر یا کرایہ پر اپنی رہائش کے لیے لے رکھے تھے۔ افغان باشندوں کو پاکستان میں کہیں بھی آنے جانے اور کسی طرح کا کاروبار کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ وہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا لیتے۔ ان کے ٹرک، ٹریلر، ٹریکٹر، ٹرالیاں اور دوسری گاڑیاں پورے پاکستان میں رواں دواں نظر آنے لگیں۔ فروٹ، کپڑے اور الیکٹرانکس کے کاروبار پر بتدریج ان کی اجارہ داری قائم ہوئی تو منشیات اور ناجائز اسلحے کی ترسیل کے گھناؤنے کاروبار اور سمگلنگ جیسے کالے دھندے کو بھی ان کی وجہ سے فروغ مِلا۔ ہم پاکستانی افغانیوں کی ان ناجائز اور غیر قانونی سر گرمیوں اور کارروائیوں سے بے نیاز تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم انصارِ مدینہ کی سُنت پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان اور پاکستانیوں کی طرف سے افغانیوں کے لیے اخوّت، اسلامی بھائی چارے اور ان کی عملی مدد کا ایک سا جذبہ تھا۔ تاہم ہمارے حکمرانوں میں شامل کچھ جرنیل، کچھ سیاسی رہنما، سیاسی جماعتیں اور میڈیا ہاؤسز افغان جہاد کی آڑ میں ڈالروں سے اپنی جیبیں بھی خوب بھر رہے تھے۔ خیر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ورنہ افغانیوں کے لیے بلا شبہ پاکستان نے اپنی سلامتی کو داؤ پر لگایا ہوا تھا۔ اس کے بدلے میں ہمیں آئندہ برسوں میں افغانیوں اور افغانستان میں مختلف ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں کی طرف سے اب تک جوصلہ ملا ہے یا مل رہا ہے، اسکی تفصیل میں جائیں تو رونگٹے ہی نہیں کھڑے ہو جاتے ہیں بلکہ احسان فراموشی اور نا شکرے پن کا ایسا مظاہرہ سامنے آتا ہے جس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
بات طویل ہو رہی ہے، 1989ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا اور کابل میں قائم کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعدافغان جہادی لیڈروں کی نگرانی میں حکومت کا قیام عمل میں آیا تو پھر برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار جیسے جہادی رہنماؤں نے افغانستان کا جو حشر کیا اور پاکستان کو بد نام کر کے اس کے احسانات کا جس طرح بدلہ چکانا شروع کیا تو یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ 1995ء میں مُلاّ عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو نہ چاہتے ہوئے اس کی سر پرستی اور دیکھ بھال ہمارے حصے میں آئی یوں اس کے ناز نخرے اور الزام تراشیاں بھی ہمیں برداشت کرنا پڑیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان پر فوج کشی کی تو پاکستان کو مجبوراً عالمی طاقتوں کا ساتھ تو دینا پڑا لیکن اس نے پھر بھی افغانستان کے خلاف عالمی طاقتوں کی جنگ کو اپنی جنگ نہ سمجھا۔ اس کا خمیازہ ہمیں امریکہ کی طرف سے مستقل ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا تو افغان طالبان کی سر پرستی میں قائم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کی خونریز کارروائیوں اور خود کش حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس میں کم و بیش اسّی ہزار کے لگ بھگ پاکستانی جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان کی مسلح افواج سے ہے اپنی جانوں کی قربانیاں دے چُکے ہیں تو کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہمارے حصے میں آ چکا ہے۔ حالات و واقعات کے اس سیاق و سباق اور پس منظر اور پیشِ منظر میں اب افغانیوں سے عقیدت کا بُت دھڑام سے گِر چکا ہے تو اس پر کسی اور کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت پسندانہ سوچ یہی ہو سکتی ہے کہ تمام غیر ملکی جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں خواہ وہ افغان باشندے ہیں یا کوئی اور، وہ ہماری جان بخشی کریں اور اپنے ملک یا ملکوں کو جائیں اور ہمیں اپنے حال پر رہنے دیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم پاکستان میں افغان باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو تقریباً پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے پاکستان اب ان کو مزید پال نہیں سکتا۔ اقوامِ متحدہ یا کوئی اور ادارہ یا ملک ان کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے، ہمیں بہر کیف اِن سے پیچھا چھڑانا ہو گا کہ اسی میں ہی ہماری بہتری ہے۔
تبصرے بند ہیں.