فلسطینی مسلمان اور اسرائیل کا ہدف

128

اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور وطن سے ہو، جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے، مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف پورے بدن کو محسوس ہوتی ہے۔ مگر موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو مسلمان ہی ان احکامات کی نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ فلسطینی مسلمان اس وقت جس تکلیف میں مبتلا ہیں اس پہ اگر تمام اسلامی ممالک مل کر کھڑے ہو جائیں تو صورتحال چند گھنٹوں میں یکسر بدل جاتی ہے، فلسطین کی صورتحال اگر تبدیل نہیں ہو رہی تو اُس کے پیچھے پہلی وجہ ہی مسلمانوں کا اتفاق سے نہ رہنا ہے۔ اس وقت ہر ملک اپنے اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلہ کر رہا ہے۔
اسرائیل تو بڑھ چڑھ کے اپنے نقصانات اور اُن کا مقامی میڈیا بھی بتا رہا ہے۔ فلسطینیوں پہ مظالم اور جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی اسرائیل تیزی سے کر رہا تھا کسی انسانی حقوق کی تنظیم، یا اقوام متحدہ میں بھی اس بات پہ کوئی بیان نہیں دیا جب تک فلسطین کی ایک تنظیم حماس نے اسرائیل پہ چڑھائی نہیں کی۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پُرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس طویل اور خونی تنازع کو دہائیاں گزر چُکی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کوئی مستقل حل دکھائی نہیں دے رہا۔
غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے، اس علاقے کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کے تجارتی اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ
صورتحال یہ ہے کہ غزہ کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں اور دن بہ دن اس تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے جس میں عورتیں، بچے اور مرد شامل ہیں۔ حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں، بجلی، ایندھن، خوراک، سامان اور پانی کی سپلائی منقطع کر دی گئی ہے۔ بہت سے ہسپتالوں میں جنریٹر سے گزارا کیا جا رہا تھا جس کا ایندھن بھی اب ختم ہو چُکا ہے۔
اب فلسطین کی صورتحال مزید بدتر ہو گی کیونکہ اس کے پیچھے چند ایسی وجوہات جو میں اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گی۔ ایک تو امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے، امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اسرائیل روانگی سے قبل میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ …… اسرائیل کو آج،کل اور ہر دن امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انتھونی بلنکن نے یہ تو اپنے بیان میں کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پُر عزم ہیں اور ہم نے حماس کی جانب سے نا قابل بیان کارروائیوں کو دیکھا ہے۔ امریکہ نے بھی ہمیشہ کی طرح یکطرفہ طور پر حماس کی کارروائیوں کو تو دیکھا مگر اسرائیل کا فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا وحشیانہ عمل نہیں دیکھا۔ مسلمان اپنے مقامات مقدسہ کے ساتھ کسی بھی طرح کا کمپرومائز نہیں کر سکتے اور اگر حماس کا ردعمل سامنے آیا تو وہ بھی اسرائیل کے مسلمانوں کے ساتھ بے باکانہ اور ظالمانہ سلوک کو دیکھتے ہوئے عمل میں آیا۔ امریکہ نے تو باضابطہ طریقے سے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا مگر اہم سوال کہ اگر سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہونگے؟
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ تعلقات استوار ہونے کے امکانات کو دیکھتے ہوئے حالیہ دنوں میں پاکستان میں بھی یہ تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ اس عمل سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں؟ پاکستان کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے تو اہم سٹیٹمنٹ جاری ہوا کہ پاکستان نیوٹرل رہے گا۔ مگر سعودی عرب اور اسرائیل کے مذاکرات اس لیول پہ آ چُکے ہیں کہ اگر اسرائیل مذاکرات سے سعودی عرب کو بھی قائل کر لیتا ہے تو سعودی عرب کے کسی بھی معاہدے کے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم ممالک پہ بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
اہم بات یاد رہے کہ ریاض اسلامی ممالک کی قیادت کرتا ہے اور اسلامی تعاو ن تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد ہی فلسطین کے معاملے پہ رکھی گئی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی پاکستان پر دباؤ کی خبریں چلتی رہیں پاکستان اسلامی ممالک میں بڑا اہم ملک ہے اور اسرائیل سے متعلق کسی بھی معاہدے میں اسلام آباد کی شمولیت دیگر مسلم ممالک کو فیصلہ کرنے کی راہ ہموار کر ے گی اور اس وقت سعودی عرب اور پاکستان کا فیصلہ ہی تمام مسلم ممالک کے لیے اہم ہے اور سب کی نظریں ان کے فیصلے پہ ہی ٹکی ہوئی ہیں۔ تمام صورتحال کو جانچتے ہوئے اگر بات کی جائے تو سعودی عرب کے لیے بھی دیگر بڑے مسلم ممالک کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان فیصلہ نہیں ہے کیونکہ اس فیصلے کا عوامی ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو اس کا دباؤ پاکستان پر بھی بڑھے گا اور پھر پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہو گا اور نہ ہی پاکستان سے نیوٹرل رہ پائے گا یہ تمام سٹیٹمنٹ بے بنیاد ثابت ہونگے۔ یہ ہیں وہ حقائق جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتی تھی۔ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کے بعد مقامات مقدسہ کو مسمار کر کے اپنے ہدف کو پورا کرنا چاہ رہا ہے مگر ان تمام اہم خارجی امور کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ مسلم امہ کے لیے ایک امتحان ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نظریں تمام مسلم ممالک پہ ہی ٹکی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.