بحر کی بے کنار وسعت اور وقت کی لامحدود حالت بھی کہیں نہ کہیں تمام ہوتی ہے۔ایک دن پاکستان کو بھی غیر قانونی مقیم افراد کو نکالنا تھا کہ ہر ملک پر حق بس اس کے پیدائشی شہریوں کا ہوا کئے۔تیسری دنیا میں کوئی ریاست اپنے شہریوں کا ہی بوجھ اٹھا لے تو یہی بڑی بات ٹھہری۔پاکستان تو نصف صدی سے اپنے کمزور کندھوں پر لاکھوں نہیں کروڑوں افغا نیوں کا بوجھ اٹھاتا آیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 22 لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر موجود اور رجسٹر ہیں۔ اگست2021 میں افغانستان پر طالبانی قبضے کے بعد8 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان آئے تھے۔دوسری جانب پاکستان سرکاری طور پر40 لاکھ افغانوں کی موجودگی کی بات کرتا ہے۔یہ تو خیر اعداد و شمار کے گورکھ دھندے ہیں جبکہ حقیقی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ چھوٹے شہروں کو چھوڑیے محض کراچی،لاہور،راولپنڈی،اسلام آباد،فیصل آباد،پشاور، صوابی، سوات اور دیگر شہروں میں ہی لاکھوں افغانیوں کے غول کے غول ہیں۔ پاکستان اگر افغانیوں کو نکالنے میں کامیاب و کامران ہوتا ہے تو نصف فیصد جرائم،بے روز گاری،مہنگائی اور شہری مسائل کم ہو جائیں گے۔یہاں کے ہسپتالوں میں پیدائشی پاکستانیوں کو علاج اور ادویات ملتی نہیں کہ اوپر سے یہ افغانی ہمارے شفا خانوں پر بوجھ بن چکے ہیں۔عوامی ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیوں میں پاکستانیوں کو سفری سہولیات میسر نہیں کہ افغانی بڑے ٹھسے سے یہاں براجمان ہوتے ہیں۔جائیداد و املاک،تجارت و زراعت اور کرنسی تک پر یہ قا بض ہو چکے ہیں۔پاکستان کی گلیاں اگر لہو سے لالہ رنگ ہوتی ہیں تو انہی کی وجہ سے۔
مشرف کے سیاہ عہد میں نیٹو سپلائی کے نام پر پاکستان کی ہر بڑی اور چھوٹی سڑک تباہ ہو کررہ گئی۔لاکھوں وزنی کنٹینر ہماری سڑکوں بلکہ سینے پر مونگ دلتے رہے۔اپنی ملازمت بچانے کے لیے مارشل لا لگانے والے ڈکٹیٹر نے ٹکہ راہداری فیس نہ
لی کہ کم ازکم سرکاری خزانے میں کچھ تو آتا۔ کولیشن فنڈ کے نام پر البتہ امریکہ سے اربوں ڈالر مخصوص مافیا کی توندوں اور تجوریوں میں جاتے رہے۔حساب کتاب کرنے بیٹھیں تو آج افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ملا۔کچھ عرصہ قبل یو این ایچ سی آر اور پاکستان نے ملکر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا پروگرام بنایا تھا۔کچھ افغانی رضاکارانہ طور پر واپس بھی سدھارے کیونکہ ہر آدمی کو 370 ڈالر دیئے گئے تھے۔ چھ، سات افراد کے گھرانے کو تین، تین ہزار ڈالر دیئے گئے۔ ہوا یوں کہ افغانی مہاجر قانونی طور پر وہ پیکیج لیکر واپس گئے اور پھر غیر قانونی طور پر پلٹ آئے۔ پاکستان کی بد بختی اور سیاہ قسمتی میں دو قانون شکن ڈکٹیٹروں کا بڑا ہاتھ رہا۔ 1980 کی دہائی میں ضیا الحق نے افغانستان میں جنگ و جدل اورآتش و آہن کی کاشت کی اور وہ دن اور آج کا دن پھر پاکستان کو استحکام و قرار نصیب نہ ہوا۔ پاک بھارت تعلقات کے بعد پاک افغان تعلقات کی ہر کھیتی سے ہم بار بار زہریلی فصل اٹھاتے رہے۔آج پاکستان کے قصبہ قصبہ، قریہ قریہ، نگر نگر اور شہر شہر میں غیر قانونی طور پر آنے والے افغانیوں کا قبضہ کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان اجڈ اور وحشیوں کی بدولت پاکستانی معاشرے سے تحمل، برداشت اور رواداری رخصت ہوئی کیونکہ یہ لوگ امن پسند نہیں لڑاکو اور جھگڑالو ہیں۔
جنگ و جدل اور خود کش حملوں کے علاوہ افغانستان دنیا میں منشیات فروشی کی الگ شہرت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق2022 کے بعد سے افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ عالمی منڈی میں 80 فیصد افیون افغانستان سے سمگلنگ ہو کر آتی ہے۔ ادھر پاکستان میں 80 فیصد دہشتگردی اور معاشی تباہی میں بھی انہی افغانیوں کا نام آتا ہے۔ہماری معیشت کا انجر پنجر ہل گیا،یہاں کے شہریوں سے رزق اور روزگار چھن کر رہ گیا،مارکیٹوں اور منڈیوں پر ان کا قبضہ ہو گیا۔پشاور طور خم سرحد سے ڈالر اورکوئٹہ چمن سرحد سے اشیا کی افغانستان منتقلی عام ہوئی تو یہاں مہنگائی اور گرانی نے مستقل ڈیرے ڈال لیے۔ ہماری گندم ہماری بھوک مٹانے کے بجائے ان کے شکموں میں جانے لگی۔ہماری چینی ہمارے لیے کڑواہٹ کی حد تک مہنگی ہوگئی اور ان کی مٹھاس کا ذریعہ بن گئی۔پاک سر زمین پر اسلحہ،منشیات اور لڑائی جھگڑے عام ہوئے تو نئی نسل اس ملک کے مستقبل سے ہی مایوس ہو کر رہ گئی۔افغانیوں کے سخت درشت لہجے،لڑائی جھگڑے،بدتمیزی، دریدہ دہنی اور احسان فراموشی سے ہمارے اپنے سماج کے بھی قرینے بدل گئے۔پاکستانی لوگ بھی صلہ رحمی،رحم دلی اور نرمی بھول گئے۔یہ زہر نسلوں اور زمینوں میں کچھ اس طرح سرایت کر گیا کہ سوچنے پر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
آج کچھ طوطی ہفت بیاں یہ ترانے گاتے اور نغمے الاپتے ہیں کہ افغانیوں کو مت نکا لو۔کیوں حضور کیوں؟ کچھ بلبل ہزار داستاں اب بھی فسانے سناتے اورکہانیاں کہتے ہیں کہ پاکستان کو افغان مہاجرین کو پناہ دیتے رہنا چاہئے۔ہاں افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دے دی جائے تو خود پاکستانی شہری کدھر جائیں؟شہریت اور شناخت کا مسئلہ اور مہاجرین و پناہ گزین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے وسائل اور رقبے سے بڑھ کر لاکھوں مہاجروں کو برداشت نہیں کر سکتا۔جاننا اور ماننا چاہئے کہ ایک نارمل مملکت کمزور یا نرم سرحدیں بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ان افغانیوں کا کبر و نخوت اور سرکشی و بغاوت انتہا کو پہنچی ہو ئی ہے۔پاکستان کتنی بار کہہ چکا کہ جنگجوؤں اور دہشت گردوں کو لگام دو مگر پھر بھی افغانیوں کی گز بھر لمبی زبان آگ کھاتی اور شعلے اگلتی ہے۔اندازہ کیجئے افغان ترجمان کس قدر رعونت و تکبر سے کہتا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ قبول نہیں۔ حضور پاکستان کے اسی فیصلے میں اس کے شہریوں کی بقا اور معیشت کا ارتقا ہے۔کہا جاتا ہے سویڈن نے ایک لاکھ مہاجرین ہمدردی کی بنیاد پر لیے تھے پھر چند سال بعد اس ملک کی کایا ہی پلٹ گئی۔ قتل، ریپ، چوری، ڈکیتی، بلوے اور دنگے شروع ہوئے اور سویڈن وہ سویڈن نہ رہا۔ پاکستان بھی تبھی پاکستان رہ پائے گا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.