نہتےفلسطینی اور مسلم امہ!!

158

ملک کے داخلی حالات سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ یقیناً ہمارے لئے ہمارے قومی سیاسی اور معاشی حالات نہایت اہم ہیں۔ ہر ذی شعور پاکستانی اس بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ یہ فکرمندی بالکل بجا ہے۔سو یہ قومی خبریں بھی اہم ہیں کہ عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر فرد جرم عائد ہوا چاہتی ہے۔ میاں نوا ز شریف کم و بیش چار برس کے بعد ملک واپس آ رہے ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں عدالت نے فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے یا تاخیر کا شکار ہو جائیں گے؟۔ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم فلسطین۔اسرائیل میں جاری جنگ اس وقت اہم ترین خبر ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ فلسطین امت مسلمہ کا حصہ ہے۔ فلسطینی مسلمان گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل کے ناجائز قبضے کو بھگت رہے ہیں۔ اس وقت نہتے فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے۔ معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں جا رہی ہیں۔یہ نہایت دکھ کا مقام ہے۔ یہ معاملہ اس لئے بھی توجہ طلب ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ اس آگ کے شعلے ایران تک پہنچے تو پاکستان بھی ان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ سو ہمارے داخلی سیاسی اور معاشی حالات سے قطع نظر یہ ایک نہایت اہم معاملہ ہے۔ لازم ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے۔

چند دن پہلے یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا۔ فلسطینی نوجوانوں نے حفاظتی باڑ عبور کی اور جنوبی اسرائیل پر راکٹوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ حماس کا حملہ اسرائیلی مظالم کا رد عمل لگتا ہے۔ فلسطین محض یہ چاہتا کہ اسرئیل کے زیر قبضہ اپنے علاقے آزاد کروائے۔ اسرائیل نے 1967 میں ان فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے یہودی بستیاں بسا لی تھیں۔ ذیادہ تر مسلمان ممالک ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل اس زمین کے ساتھ اپنے تاریخی روابط اور مقدس کتابوں کا حوالہ دیتا ہے۔ فلسطینی عوام چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارلحکومت بنایا جائے۔ جبکہ اسرائیل یروشلم کو اپنا ناقابل تقسیم حصہ قرار دیتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری اس تنازعہ کی وجہ سے اسرائیل کی اردگرد کے اسلامی ممالک سے جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اسرائیل نہتے فلسطینیوں کے خلاف چھوٹی بڑی کاروائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق تقریبا 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقے اور غزہ میں رہتے ہیں۔ یہ مسلمان نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ بالکل ایسے جیسے کشمیر کے معاملے پر یہ ممالک چپ سادھ لیتے ہیں۔امریکہ سمیت انسانی حقوق کے سب مغربی ٹھیکے دار برسوں سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حمائتی ہے۔ امریکہ نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔

اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا باعث ہوں، انہیں حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ لیکن کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین دونوں ہی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ لیکن آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا۔کشمیر کو ہی دیکھ لیجئے۔ اس میں اب تک ایک لاکھ شہادتیں ہو چکی ہیں۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوچکی ہے۔ لیکن دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہی معاملہ فلسطین کے ساتھ ہے۔ اسرائیل ان پر ڈھٹائی سے بمباری کرتا ہے۔ ان کی خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کو روکتا ہے۔ ان کی ناکہ بندی ہوتی ہے۔ لیکن دنیا محض تماشا دیکھتی ہے۔

اب بھی دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جنگ کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی بمباری میں معصوم بچو ں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ معصوم فلسطینیوں پر ہزاروں ٹن بارود برسارہا ہے۔ فلسطین کی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل ممنوعہ فاسفورس بم کا استعمال بھی کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے لئے بجلی، پانی، ایندھن بند کر دیا گیا ہے۔ خوراک کی قلت ہے۔ دونوں اطراف میں ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔لیکن اسرائیل کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اصولی طور پر مسلمان برادری کو کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کی امداد کو آنا چاہیے۔لیکن بیشتر مسلمان ممالک دونوں اطراف کو صبر اور تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جنگ بندی کی کی کچھ نہ کچھ کوششیں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں کم و بیش پچاس مسلمان ممالک ہیں۔ ان میں ڈیڑھ ارب مسلمان بستے ہیں۔ بیشتر مسلمان ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ لیکن المیہ دیکھیے کہ یہ ممالک مل کر بھی فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔ مسلم امہ بھی بے چاری کیا کرئے۔ اس میں اتحاد نہیں ہے۔بہت سے مسلمان ممالک باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یا پھر غربت، بیروزگاری، وغیرہ کا شکار ہیں۔ کشمیر میں بھی گزشتہ کئی برس سے خون ناحق بہہ رہا ہے۔ فلسطین میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مسلمان ممالک کا اتحاد او۔ آئی۔ سی بھی عضو معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ یہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے زیادہ رکن ممالک کی حامل تنظیم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جان نہیں ہے۔ کسی زمانے میں او۔آئی۔ سی کے پلیٹ فارم سے مشترکہ فوج، مشترکہ کرنسی وغیرہ کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ان تجاویز کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ اس وقت ایران اور عراق نے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین، اسرائیل جنگ کے معاملے پر او۔آئی۔ سی یعنی اسلامی سربراہی کانفرنس کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔ لیکن یہ اجلاس ہو بھی جائے تو کیا حاصل ہو جائے گا؟

کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ نہایت خوش آئند امر ہے کہ حماس نے اسرائیل کے طاقت ور ترین انٹیلی جنس نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کو کسی گریٹر گیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیں۔ تاکہ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ بہرحال اس سارے قضیے میں سعودی عرب کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر امریکہ گزشتہ کئی برس سے سعودی عرب اور اسرائیل کو قریب لانے کے لئے متحرک ہے۔ اطلاعات تھیں کہ دونوں ممالک کسی معاہدہ کے قریب تھے کہ یہ جنگ شروع ہو گئی۔ اب معلوم نہیں کہ اس جنگ کا انجام کیا ہو گا۔ کیا ہمیشہ کی طرح اسرائیل فلسطینیوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لے گا؟ کیا ہمیشہ کی طرح مزید فلسطینی شہید ہو جائیں گے اور کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی؟ کیا اس بار بھی دنیا صرف تماشا دیکھتی رہے گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی مسلم امہ فلسطینیوں کے حق میں صرف دعائیں کرنے اور زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گی؟

تبصرے بند ہیں.