نوجوان معاشی ترقی کا ہراول دستہ

132

پاکستان کی 244 ملین آبادی میں 68 فی صد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں، جب کہ ان میں سے 32 فی صد 15 سے 20 سال عمر کے درمیان ہیں۔ آج کا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ خوف اور ڈر کے ماحول میں پرورش پانے والی نوجوان نسل اپنے آئے روز کے بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر عجب صورت حال پیش کر رہی ہے، جس کا اظہار سٹریٹ کرائمز اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے لگایا جا سکتا ہے۔ ملک ترقی کے بجائے زبوں حالی کا شکار ہے، کمر توڑ مہنگائی، تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اقربا پروری، شہروں پر آبادی کا بوجھ، غیر معیاری تعلیم، دہشت گردی، بد عنوانی، رشوت اور سفارش وغیرہ نے ملک کے 64 فیصد نوجوان طبقہ کو مزید پریشان کردیا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں لیا جا رہا ہے۔

محکمہ شماریات کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 4 لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان پاکستانی روزگار کی تلاش میں بیرون ملک گئے۔ موجودہ مخلوط حکومت کے دور میں 12 لاکھ سے زائد نوجوان روزگار کے لیے بیرون ملک گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے گزشتہ پانچ سالوں میں 2.75 ملین نوجوانوں نے ملک چھوڑا۔ اعداد و شمار کے مطابق 832,000 افراد بیرون ملک گئے جبکہ 400,000 سے زائد افراد نے رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں 40 مختلف شعبوں میں ملازمت کے لیے ملک چھوڑا۔ نوجوانوں کی اکثریت عرب ممالک میں گئی جن میں 7 لاکھ سعودی عرب، 2 لاکھ 29 ہزار متحدہ عرب امارات، 1 لاکھ 11 ہزار عمان اور 90 ہزار قطر گئے۔ مشرق وسطیٰ سے باہر 20 ہزار سے زائد پاکستانی ملائیشیا، 8 ہزار پاکستانی برطانیہ، 6 ہزار سے زائد رومانیہ، 3 ہزار یونان اور 1300 سے زائد امریکا گئے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران تارکین وطن میں پنجاب سے 6 لاکھ 83 ہزار، خیبرپختونخوا سے 3 لاکھ 24 ہزار، سندھ سے 90 ہزار، بلوچستان سے 12 ہزار، آزاد جموں و کشمیر سے 44 ہزار اور اسلام آباد سے 11 ہزار نوجوانوں کا تعلق تھا۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں 3 لاکھ 82 ہزار بیرون ملک گئے، 2019 میں 6 لاکھ 25 ہزار، 2020 میں 2 لاکھ 25 ہزار، 2021 میں 2 لاکھ 88 ہزار اور 2022 میں 8 لاکھ سے زائد بیرون ملک گئے۔

ان حالات میں امید کی کرن نوجوان ہی نظر آتے ہیں، جس کے لئے تجاویز حاضر خدمت ہیں،

طلبہ کے لیے نئی ہنر پر مبنی شارٹ کورسز کروائے جائیں گے، پیشہ ورانہ ٹریننگ سینٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ ان تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان مفت کورسز سے محروم ہیں۔ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر نوجوان بے روزگار ہیں۔ انہیں ہنر کی تعلیم دینا ضروری ہے ورنہ یہ غلط کاموں میں ملوث ہو کر ملک کیلئے بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ ایسے پراجیکٹ شروع کئے جائیں جس سے یوتھ کو نہ صرف ہنر اور تعلیم ملے بلکہ ان کا روزگار بھی یقینی ہو۔ اس طرح نوجوان ملکی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا بہتر کردار ادا کرسکیں گے۔ تعلیمی اداروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، وہ تمام سہولیات دی جائیں جو عالمی معیار سے مطابقت رکھتی ہوں۔ سب کیلئے تعلیم مفت اور معیاری ہو، اسی طرح جو پاکستانی جدید ہنر حاصل کرکے یہاں سے آن لائن کام کریں وہ بھی ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارے نظام تعلیم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

طلبہ یونینز ”یوتھ انڈسٹری“ تھی جہاں ان کی تربیت ہوتی تھی، وہ منظم ہوتے تھے، اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھاتے تھے اور حل کیلئے کام کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ طلبہ یونینز بحال کرنی ہوں گی تاکہ مستقبل کی قیادت تعلیم یافتہ ہو۔

ہمارے پاس نوجوانوں کی شکل میں سرمایہ موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس اتنی تعداد میں نہیں ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس ملک کے نوجوانوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ افرادی قوت کے درست اور بروقت استعمال کے ساتھ ہمارا ملک بھی تیز ترین معاشی و سماجی ترقی کی مزید نئی جہتوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اوراس کی معیشت کا بڑا حصہ زرعی پیداوار سے منسلک ہے لہٰذا پہلی ترجیح زراعت کے شعبے میں استحکام پیدا کرنے کی ہونی چاہئے، اس کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں، جس سے زراعت کے شعبے سے وابستہ نوجوانوں کو آگے لایا جاسکے گا۔ مختلف زرعی کالجز اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو اسکالر شپ کے ساتھ بہتر تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں۔ دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو سود سے پاک قرض فراہم کریں تاکہ جدید مشینری اور دیگر زرعی آلات کی مدد سے زرعی اجناس کی پیداوار میں ملکی ضروریات کے بعد برآمدات کے لئے بھی وہ اشیاء فراہم کر سکیں جن کی غیر ممالک میں مانگ ہے۔ نوجوان اس معیشت کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز سے سرانجام دے سکتے ہیں اور زرمبادلہ میں اضافے کے راستے کھولے جا سکتے ہیں۔

صنعت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے انجینئرنگ میں نت نئی شاخیں متعارف کرائی جائیں، جو ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنا عملی کردار بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہوئے صنعت کے شعبے میں جدّت لا سکیں جو پاکستانی معیشت کو اوپر لے جانے میں مددگار ثابت ہو۔

سائنس، کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبہ جات کے ذریعہ معیشت کو مزید وسعت دی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، تعلیمی اصلاحات سے توازن ادائیگی کے مسئلے کو طویل مدت کیلئے حل کیا جا سکتا ہے علم و تحقیق ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق میں اوسط درجے کی صلاحیت سے ایسا ممکن نہیں، اسی لئے برآمدات کے فروغ اور اضافے کیلئے ایسے سکول، کالجز بنانے کی ضرورت ہے، اور ایسی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے، جو عالمی معیار کی تحقیق کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ پٹرولیم انجینئرنگ جس میں کافی پاکستانی نوجوان دلچسپی لے رہے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سطح سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان اداروں میں اپنی خدمات بھی انجام دیں گے۔

تبصرے بند ہیں.