بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں ننجا کی تاریخ پڑھنے والی ایک طالبہ کو امتحان میں کورا کاغذ تھمانے پر اس وقت پورے نمبر دیئے گئے جب ان کے پروفیسر کو پتا چلا کہ انہوں نے اپنا مضمون نظر نہ آنے والی سیاہی سے لکھا ہے۔ طالبہ ایمی ہاگا نے یہ کارنامہ ایک ننجا تکنیک ”ابورداشی“ کے ذریعے انجام دیا جس میں انہوں نے مٹر کے دانوں کو کئی گھنٹے بھگو کر اور پھر انہیں پیس کر یہ سیاہی تیار کی۔ جب ان کے پروفیسر نے اس کاغذ کو چولہے کی مدد سے گرم کیا تو الفاظ نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ طالبہ ہاگا نے بتایا کہ ”یہ ایک ایسی تکنیک ہے جو میں نے بچپن میں ایک کتاب سے سیکھی تھی۔ میں امید کر رہی تھی کہ کوئی اور اس تکنیک کو استعمال نہ کرے“۔ ہاگا کو بچپن میں ایک اینی میٹڈ ٹی وی شو دیکھنے کے بعد ننجا کی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ ننجا قرونِ وسطیٰ کے جاپان میں خفیہ اہلکار اور قاتل ہوا کرتے تھے۔ جاپان کی مائی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد طالبہ ہاگا نے پہلے سال میں ننجا کی تاریخ پر کورس پڑھنے کی ٹھانی اور ان سے اگاریو کے ننجا میوزیم سے متعلق مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جب پروفیسر نے کلاس میں کہا کہ وہ تخلیقی صلاحیت کے استعمال پر زیادہ نمبر دیں گے تو میں نے فیصلہ کیا میرا مضمون سب سے منفرد ہونا چاہیے۔ میں نے کچھ دیر اس بارے میں سوچا اور پھر مجھے ابورداشی تکنیک کا خیال آیا“۔ طالبہ ہاگا نے مٹر کے دانوں کو رات بھر بھگویا اورپھر انہیں پیس کر ایک کپڑے میں ڈال کر بھینچا۔ ان مراحل کے بعد انہوں نے پسے ہوئے مٹر کے دانوں کو پانی میں ملایا پھر اس کی مخصوص مقدار برقرار رکھنے کے لیے دو گھنٹے صرف کیے۔ اس کے بعد وشی نامی پتلے کاغذ پر ایک باریک برش کے ذریعے یہ تحریر لکھی۔ جب ان کی لکھائی سوکھی تو وہ نظر آنا بند ہوگئی۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کے پروفیسر ان کا خالی امتحانی پرچہ کوڑے دان میں نہ پھینک دیں طالبہ ہاگا نے اس کاغذ پر عام سیاہی سے لکھ دیا کہ ”اس کاغذ کو گرم کریں“۔ پروفیسر یوجی یمادا نے بتایا کہ انہوں نے جب یہ مضمون دیکھا تو وہ حیران ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے اس سے پہلے خفیہ کوڈ میں رپورٹس لکھی دیکھی تھیں لیکن ابورداشی کے ذریعے پہلی مرتبہ ایسا دیکھا۔ سچ بتاؤں تو مجھے شک تھا کہ شاید یہ الفاظ صحیح ظاہر نہیں ہوں گے لیکن جب میں نے اپنے گھر میں چولہے پر کاغذ کو گرم کیا تو الفاظ بہت صاف نظر آنے لگے اور میں نے سوچا یہ بہت خوب ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں اس مضمون کو پورے نمبر دینے میں بالکل بھی نہیں ہچکچایا۔ حالانکہ میں نے پورے کاغذ کو گرم نہیں کیا تاکہ میڈیا کو اس بارے میں معلوم ہو اور وہ اس کی تصویر لے سکیں“۔ خالی صفحے رکھنے کی روایت ہمیں ایک اور جگہ بھی ملتی ہے۔ یعنی جب اخبارات کسی ڈکٹیٹر کی سنسرشپ کی پابندیوں کے خلاف خاموش احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو وہ عموماً اپنے صفحات سے سنسرشپ کی زد میں آکر اتاری گئی خبریں یا مضامین کی جگہ کو خالی ہی رہنے دیتے ہیں۔ اخبار انہی خالی جگہوں کے ساتھ شائع ہوکر مخصوص احتجاج کی روایت میں شامل ہو جاتا ہے۔ کل 12 اکتوبر کا دن ہے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اپنی ذاتی انا کے لیے اُس وقت کی جمہوریت کو قتل کردیا تھا۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے جمہوریت کے خلاف قاتلانہ اقدام کے حق میں صرف سیاسی حسد کی وجہ سے تقریباً تمام سیاسی بوزنے نواز شریف کا تختہ الٹنے کے ظاہری اور درپردہ حامی نظر آنے لگے تھے۔ ایسی جماعتوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کو ویسی بری نظر سے نہیں دیکھا جیسے وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو دیکھنے کے عادی تھے۔ یہاں تک کہ لبرل ازم اور مغربی معاشرتی رسم و رواج کی مخالف جماعت اسلامی بھی اُس وقت نواز شریف کو تنہا چھوڑنے میں کسی سے پیچھے نہ تھی۔ وہی جماعت اسلامی جو کبھی ووٹوں کی بنیاد پر عوامی جماعت تو نہ بن سکی لیکن پریشر گروپ کے حوالے سے 50ء تا 80ء کی دہائیوں میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ وہی جماعت اسلامی جو اَب ڈوبنے سے بچنے کے لیے تنکے کے سہارے کو بھی غنیمت جانتی ہے خواہ اُسے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی بغل بچہ جماعت ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ اُسی جماعت اسلامی نے نواز شریف کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کو ترجیح دی تھی۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں کیونکہ جنرل پرویز مشرف نے آکر ملک کو داؤ پرتو لگایا ہی یہاں کے مظلوم لوگوں کو بھی بیچ کر ڈالر کمانا شروع کردیئے۔ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے اپنے اقتدار کی سپورٹ کے لیے پاک سرزمین کے کچھ ہوائی اڈے امریکہ کے استعمال میں دے دیئے۔ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ جن الزامات کی بنیاد پر الٹا تھا وہ سب اُس کی اپنی حکومت میں کارفرما ہوگئے جن میں حکمرانی کا غرور، اقرباپروری، فیصلوں میں غیرملکی مفادات کو اہمیت ملنا، کشمیر کی سودے بازی، قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے اور اپنے ہی شہریوں کو غیرملکی بارود سے مروانا وغیرہ شامل تھے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو بھی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔ وہی جنرل پرویز مشرف جس نے سیاست دانوں کو ملنے والے ووٹ کی عزت کو سرعام رسوا کرکے اپنے لیے ریفرنڈم کا ناٹک رچایا اور 98فیصد ووٹ لینے کا وہ دعویٰ کیا جو دوسری عالمی جنگ جیتنے والے برطانوی وزیراعظم چرچل اور امریکی صدر روزویلٹ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کی رات کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم نوازشریف جیل میں تھے جبکہ پرویز مشرف دن دیہاڑے آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے یہ دن اور جمہوریت کی یہ راتیں کب ختم ہوں گی؟ جاپانی طالبہ کے خالی کاغذ کو جب گرم کیا گیا تو اُس پر الفاظ ابھر آئے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ کے وہ صفحات جو بظاہر خالی نظر آتے ہیں ان میں لکھی نظر نہ آنے والی تحریریں کب ابھرکر سامنے آئیں گی؟ میں اپنے کالم کی جگہ کو خالی شائع کرانا چاہتا ہوں۔
تبصرے بند ہیں.