کیا مجھے یہ لکھ دینا چاہیے کہ جاوید قاسم ہمار ے عہد کا اچھوتا اور لاثانی شاعر ہے؟ اِس سوال نے مجھے دیر تک پریشان کیے رکھا کہ مجھے اس سے بہتر الفاظ اُس کی شاعر ی پر مجموعی تاثر کیلئے اپنی ذہنی لغت سے دستیاب نہیں ہو پا رہے تھے لیکن میں یہ ضرور سمجھ رہا تھا کہ بات صرف یہ دو لفظ لکھنے سے ادھوری رہ جائے گی۔ میری دقت پسند طبیعت آسان رستوں اور قابلِ گرفت مقاصد کے حصول کیلئے کبھی سرگردا ں نہیں ہوتی۔ کچھ تھا جو میں اُس کی شاعری میں محسوس کر رہا تھا لیکن لکھ نہیں پا رہا تھا گو یہ لکھنا ایک نثر نگار کیلئے ”کاروباری“ نقطہ نظر سے انتہائی نقصان دہ ہے لیکن جن وارداتوں کے ہم چشم دید گواہ ہیں اگر اُ ن کو بھی تحریر نہیں کریں گے تو یقینا سماجی ارتقا کے سفر میں بد دیانتی کے مرتکب ہوں گے۔ سو میں نے جاوید قاسم کی شاعر ی پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد لکھی جانے والی ابتدائی تحریر کو جھنجلا کر ٹکرے ٹکرے کر دیا تاکہ دوبارہ لکھتے ہوئے وہِ تحریر یا اس کا کوئی خاکہ میرے سامنے نہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ پہلی تحریر میں کچھ اہم باتیں جاوید قاسم کی شاعری کے حوالے سے میری جھنجلاہٹ کی نذر ہو گئی ہوں لیکن میں یہ جانتا تھا کہ اب میں نے کیا کرنا ہے۔ جاوید قاسم کی دستیاب شاعری پر ازسر نو غور کرنے کیلئے میں نے اسکی پہلی کتاب ”پوری عمر کا دن“ بھی اپنے مطالعہ میں شامل کر لی۔ یوں مجھے اُس کے شعری سفر کے ارتقا بارے جاننے میں زیادہ آسانی میسر آ گئی۔
جاوید قاسم نہ تو حادثاتی شاعر ہے اور نہ ہی اُسے ”بچپن سے شاعری کا شوق ہے“۔ اُس کی تخلیق کا خمیر بھی تخلیق کی مٹی سے اٹھایا گیا تھا اور اگر وہ شاعر نہ ہوتا تو شاید پیدا بھی نہ ہوتا۔ شاعری کے علاوہ اس دنیا میں آنے کا کوئی دوسرا مقصد میں اُس کی ذات کے حوالے سے تمام تر کوششوں کے باوجود دریافت کرنے میں نا کام رہا ہوں۔ شاید یہ بات وہ خود بھی جانتا ہے۔
زمانہ جب میرے ہونے کے انتظار میں تھا
پڑی تھی خاک مری دست ِکوزہ گر سے اُدھر
ہم جس طبقاتی سماج میں 14 گھنٹے زندہ رہنے کیلئے 10گھنٹے کی زندگی بیچ دیتے ہیں وہاں ہر شے کی طرح تعظیم کے معیار بھی طبقاتی ہونے کی وجہ سے اکثر انتہائی قابلِ احترام تخلیق کاروں کو یا تو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے یا پھر اُن کی تذلیل کیلئے کوئی نہ کوئی جواز تراش لیا جاتا ہے۔ نتیجہ سرکار سے وابستہ یا نرگسیت کے مریض تخلیق کار اپنے خود ساختہ سماجی رتبے کی بالکونی میں بیٹھ کر ادبی دہشت گردی اور علمی انتہا پسندی کے خود کش حملے کرتے رہتے ہیں اور سماج کا ارتقائی عمل نہ صرف سُست ہو جاتا ہے بلکہ غلط سمت پر گامزن ہونے کے باعث قوموں کو زوال کی سمت بھی لے جاتا ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حقدار کو اسکا حق زندگی میں نہیں مل پاتا اور پھر وقت گزرنے کے بعد نئے عہد کا، نیا تنقید نگار یا شاعر ماضی میں ادبی دہشت گردی کے ہاتھوں شہید ہونے والے شاعروں کا کھوج نکال لیتے ہیں اور انہیں اُس مقام پر فائز بھی کر دیتے ہیں جس کے مستحق وہ اپنے عہد میں ہوتے ہیں۔ ادب کا یہ دہشتگردانہ اور ظالمانہ رویہ ناجانے کب سے ہے مگر ابھی تک جاری و ساری ہے اور ناجانے کب تک رہے گا لیکن خوبصورت بات یہ ہے کہ جاوید قاسم عزت و ذلت کے اس نظام کو مکمل سمجھتا ہے۔
جاوید قاسم کی شاعری کو کسی ”ادبی بھانڈ“ سے نہ تو سند درکار ہے اور نہ ہی اُس نے تا حال کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے جس سے اُس کے اُستاد شاعر ہونے کی خواہش کا پتہ چلتا ہو۔ وہ انسانی رویوں کے ردعمل اور فطرت کا مشاہدہ کر کے شعر نہیں کہتا بلکہ اِن تمام کیفیتوں سے گزر کر اُس پر شاعری کا نزول ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ”غبار خاطر“ میں تحریرکیا ہے ”برہان پور کے نواح میں ایک بستی رین آبادی کے نام سے بس گئی تھی۔ اسی بستی کی رہنے والی ایک مغنیہ تھی جو زین آبادی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اُس کے نغمہ و حسن کی تیر افگنیوں نے اور نگ زیب عالمگیر کو زمانہ شہزادگی میں زخمی کر دیا۔ اورنگ زیب کے اس معاشقے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اولالعزمیوں کی طلب نے اسے لوہے اور پتھر کا انسان بنا دیا تھا لیکن ایک زمانے میں گوشت پوست کا انسان بھی رہ چکا تھا۔ اورنگ زیب نے بڑی منت و التجا کر کے اپنی خالہ سے اُسے حاصل کیا اور باوجود زہد خشک اورخالص ثفقہ کے جس کیلئے اُسکا عہد بھی مشہور ہو چکا تھا۔ اُس کے عشق و شیفتگی میں اس درجہ بے قابو ہو گیا کہ اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالہ بھر بھر کر پیش کرتا اور عالم نشہ و سرور کی رعنائیاں دیکھتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن زین آبادی نے اپنے ہاتھوں سے جام لبریز کر کے اورنگ زیب کو دیا اور اصرار کیا کہ لبوں سے لگا لے۔ شہزادے نے ہر چند عجز و نیاز کے ساتھ التجائیں کیں کہ میرے عشق و دل باختگی کا امتحان اس جام کے پینے پر موقوف نہ رکھو لیکن اُس عیار کو رحم نہ آیا۔ ناچار شہزادے نے ارادہ کیا کہ پیالہ منہ کو لگا لے گویا ولقد ہمت بہ و ہتمہ بہا کی پوری روداد پیش آئی لیکن جوں ہی اُس فسوں ساز نے دیکھا کہ شہزادہ بے بس ہو کر پینے کیلئے آمادہ ہو گیا ہے۔ فوراً پیالہ اسکے لبوں سے کھینچ لیا اورکہا: عرض ِامتحان عشق بود نہ کہ تلخ کا مئے شما۔ نہیں معلوم اس قضیے کا غنچہ کیونکر کھلتا لیکن قضا و قدر نے خود ہی فیصلہ کر دیا یعنی عین عروجِ شباب میں زین آبادی کا انتقال ہو گیا۔ اور نگ آباد میں بڑے تالاب کنارے اُس کا مقبرہ آج تک موجود ہے“۔
جاوید قاسم کے ہاں تمام تشبیہات، علامتیں اور کنائے وہی ہیں جو اُس سے پہلے ہزاروں شاعروں نے استعمال کیے لیکن اُس کے اشعار میں سورج، کائنات، آسمان، زمین، شجر، فلک، آئینہ، لہو، تیرگی، روشنی، معجزہ، زیست اور ایسے لاتعداد الفاظ جب استعمال ہوئے ہیں تو انہیں نے لغت میں موجود معنی سے کچھ اوپر کے معنی دئیے ہیں۔
جاوید قاسم کی پہلی کتاب ”پوری عمر کا دن“ میں ایک شعر نظر سے گزرا تھا۔۔۔
وہ کُہسار کی صورت ہے سنگدل اتنا
مِری صدا میری جانب اچھال دیتا ہے
لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کام جاوید قاسم خود کر رہا ہے۔ اُسے سماج جیسا دکھائی دیتا ہے وہ اُس میں اپنی تخلیق اور جمالیاتی حسن کی آمیزش کر کے واپس اُسی سماج کی طرف اچھال دیتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.