وطن کی مٹی کا قرض

84

عوام کی اکثریت کے اذہان میں یہ خیال راسخ ہو چکا ہے کہ بیرونِ ملک جانے والے لوگ مال وزر کے دلداہ ہوتے ہیں اسی لیے وطن کو چھوڑ کر وہ دیارِ غیر کا رُخ کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم  نے مختلف طبقات میں اتنی معاشی خلیج پیداکردی ہے کہ سفید پوش طبقے کے لیے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی دشوار ہو گیا ہے یہی اولیں وجہ ہے کہ لوگ دیارِ غیر کا رُخ کرتے ہیں اِس طرح اپنی حسرتیں پوری کر نے کے ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کا فریضہ بہتر انداز میں ادا کرسکتے ہیں جبکہ کچھ لوگ سرکاری ملازمت کے باوجود اپنی راست گوئی اور ایمانداری کی بناپر رائج طریقہ کار کا حصہ نہیں بن پاتے اور آخرکاربے چین طبیعت کو سکون دینے کے لیے وطن کو الوداع کہنے پر مجبور ہوتے ہیں جو اہل اور باصلاحیت دماغ کے ہجرت کاایک اہم سبب ہے مظہر حسین راجہ بھی ایسے ہی شخص ہیں جن کے پاس باعزت اوربا اختیار ملازمت تھی وہ کئی برس تک وطنِ عزیز کے اہم ترین ائرپورٹ پر فرائضِ منصبی ادا کرتے رہے لیکن اپنی راست گوئی اور ایماندار ی کی وجہ سے محکمہ میں رائج طریقہ کار کا حصہ نہ بن سکے آخرکار کچھ عرصہ چھٹی لیکر دیارِ غیر کا رُخ کیا اور تن آسانی کے دستیاب مواقع چھوڑ کر محنت ومشقت کو ترجیح دی جس سے مالی مشکلات حل ہونے کے ساتھ خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں اور وہی جومزاج کے خلاف کام ہونے کی بناپر ترقی حاصل کرنے سے قاصر تھے اوقاتِ کار کی پاسداری، اہلیت و صلاحیت کی بدولت آگے بڑھتے چلے گئے آج سپین میں مظہر حسین راجہ ایک ایسا نام ہے جو پاکستانی کمیونٹی کے اجتماعات کا لازمی جزو ہیں وہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اُنھیں نام اور مقام بنانے میں اِس بنا پر بھی آسانی ہوئی کہ وہ کوئی اپنا ہو یا بیگانہ، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں کسی کا دل نہیں دکھاتے کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے کسی کو نقصان پہنچانا تو اُن کی فطرت میں ہی نہیں مگر بعض اوقات اپنی نرم،رحمدل اوربے لوث طبیعت کی وجہ سے نقصان تو اُٹھا لیتے ہیں لیکن اپنے مزاج پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں وطنِ عزیز کا یہ روشن چہرہ آجکل اپنی مٹی کا قرض اُتارنے میں مصروف ہیں نہ تحسین سے غرض نہ ستائش کی تمنا، ہم وطنوں کو نئے معاشرے میں جذب ہونے کا اہم ذریعہ ہیں۔
مظہرحسین راجہ سے میری پہلی ملاقات چوہدری محمد امتیاز لوراں کی وساطت سے ہوئی بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے لیکن باتوں ہی باتوں
میں کیسے اجنبیت بھی کیسے اپنائیت میں بدل گئی راقم کو پتہ ہی نہ چلا چند لمحوں کی ملاقات میں ہی میں ایسا تاثر لیکر واپس آیا جیسے کسی ایسے پُرانے بچھڑے رفیقِ خاص سے ملاقات ہوئی ہو حالانکہ ملاقات سے چند لمحے قبل اُن سے شناسائی تک نہ تھی میرے لیے ہی نہیں مظہر حسین راجہ کی اپنائیت اور اُن کایہ خلوص تمام ہم وطنوں کے لیے ہے کسی کی تنقید بھی اُن کی حوصلہ شکنی نہیں کر سکتی بلکہ آگے بڑھنے کی لگن ہی اُنھیں سب سے ممتاز اور محترم کرنے کی منزل آسان کررہی ہے وطن کا یہ بے مثل فرزند دیارِ غیر میں ہم وطنوں کو کسی شجرِ سایہ دارکی مانند کئی طرح کے مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھنے میں معاون ہے دیارِ غیر میں آنے والے ایسے پاکستانی جو مقامی زبان سے ناآشنا اور کسی نوعیت کے ہُنر سے محروم ہوتے ہیں مظہر حسین راجہ انھیں زبان دانی میں مہارت دلاکر اِس حد تک ہُنر مند کر دیتے ہیں جس سے ملازمت حاصل کرنا دشوار نہیں رہتا اگرکسی میں کاروبار کی سکت ہو تو کاروباری مواقع سے فائدہ اُٹھانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
راقم نے ایک دن مظہر حسین راجہ سے عرض کی کہ اپنی مصروف زندگی میں کبھی فرصت ہو تو کچھ وقت عنایت فرمائیے گا تاکہ ماضی کی یادیں اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے قدرے مفصل بات چیت کی جا سکے کئی ہفتوں کے بعد ایک دن آخرکار اُنھیں فرصت مل ہی گئی تو وہ راقم کے ساتھ ایک مناسب سی جگہ آبیٹھے آزاد کشمیر کے قریب گجرات کے ایک غیر معروف گاؤں سرسالہ میں کیسے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی تک آگاہی کا سفر طے کیا اور کیسے سرکاری ملازمت میں آئے اور پھر ملازمت سے اُکتاہٹ کے اسباب جیسی یادوں کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کیا تو کئی ایسے گوشے جن سے میرے علاوہ اور کوئی شاید ہی آشنا ہوبتاتے چلے گئے یہ اُن کی صاف گوئی تھی وہ من کے اُجلے ایسے شخص ہیں جو کچھ چھپا ہی نہیں سکتے انھوں نے یہ بتاکر حیران کردیا کہ عام طور پر ہمارے ہاں جو طریقہ کار رائج ہے اُس کے مطابق تن آسانی، کام چوری اور بدعنوانی سرکاری ملازمت کا لازمی جزو ہے مگر اسی رائج طریقہ کار نے ہی تو مجھے سرکاری ملازمت سے بدگمان کیا ائرپورٹ پر تعیناتی سے بھی وہ اِتنا ہی فائدہ حاصل کر سکے کہ لگی بندھی تنخواہ گھر لاتے رہے جب راست گوئی اور ایمانداری سے مشکلات بڑھنے لگیں تو کسی کو بُرا بھلا کہنے یا بدعنوانی کا حصہ بننے کے بجائے خاموشی سے الگ ہو گئے سپین جہاں مالی فوائد کے علاوہ ترقی کے بے پناہ مواقع ملے اب تو خیر وہ سپین میں بھی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں لیکن محنت و مشقت کے عادی مظہر حسین راجہ اب بھی چاق و چوبند ہیں انھوں نے ریٹائرمنٹ لینے کے بعداپنے شب و روز بے ہُنر اور زبان سے ناآشنا لوگوں کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لیے وقف کردیے ہیں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بنا پر وہ محافل کا اِس حد تک حصہ بن چکے ہیں کہ بارسلونا میں کوئی اجتماع منعقد ہو اور مظہر حسین راجہ کی نعت نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں بے شک خوش مزاجی اور اور خوش الہانی ایسے اوصاف ہیں جوکسی کو تنہا ہونے ہی نہیں دتے۔
بارسلونا جیسے بڑی آبادی کے ساحلی شہر میں مظہر حسین راجہ کے بی ایم ایجوکیٹرزاینڈ سروسزکے نام سے تین سکول ہیں جہاں ڈرائیونگ اور لینگوئج کورسز کرائے جاتے ہیں ایک سکول بارسلونا سنٹر میں ہے دوسرا بادالونا جبکہ تیسرا فوندو میں ہے یہ ایسے علاقے ہیں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے مظہر حسین راجہ کسی بھی شارٹ کٹ کے خلاف اور محنت پر یقین رکھتے ہیں یہ ہر آنے والے کوبھی نصیحت کرتے ہیں کہ کسی چور راستے اور غیر قانونی طریقہ سے ترقی حاصل کرنے یا فائدہ اُٹھانے کے بجائے اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھیں یہ نہ صرف خود ایک امن پسند اور قانون کے پاسدار ہیں بلکہ ہم وطنوں کو بھی امن اور قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہیں آج بارسلونا جیسے شہر میں ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والے اکثر اُنھی کے سکول سے فارغ التحصیل ہیں سپینش زبان سکھاتے ہوئے خوب محنت کرتے ہیں وطن کا یہ قابل سپوت ملازمت سے فراغت کے باوجود تعمیری سرگرمیوں میں نہ صرف خود مصروف ہے بلکہ بیٹے بلال مظہر راجہ اور بیٹی عروسہ راجہ کو بھی وطن کی مٹی کا قرض اُتارنے کے فریضے اپنے ساتھ رکھا ہے ایک اور اہم بات یہ کہ مظہرحسین راجہ کا بیٹا بلال مظہر راجہ سپین میں پہلا ایسا پاکستانی ہے جنھیں ڈرائیونگ لائسنس پڑھانے کے ساتھ عملی تربیت دینے کی بھی اجازت ہے اِس اعزاز پر مظہر حسین راجہ خوش اور اللہ کی کرم نوازی پر ہردم شکرگزار ہیں کہ پاکستانیوں کی تعلیم و تربیت میں اُن کے قائم اِدارے کومزید آسانی ہوئی ہے خوش مزاج، خوش اطوار اور خوش لباس مظہر حسین راجہ سپین میں ہم وطنوں کے لیے ایسا جوہرِ قابل ہیں جن کی بدولت پاکستانی کمیونٹی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے بلاشبہ وطن کی مٹی کا ایسا قرض اُتارنے والے سپوت ہی پاکستان کے حقیقی خیر خواہ ہیں جن کی کامیابی کی دعا دراصل ہم وطنوں کی کامیابی کی دعا کے مترادف ہے۔

تبصرے بند ہیں.