آخر کار پاکستان میں مقیم غیر ملکی اور افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے عوامی مطالبے نے فیصلہ کی شکل اختیار کرلی۔ یکم نومبرکے بعد پاکستان میں غیرقانونی مقیم تارکین کو رہائش فراہم کرنے یا سہولیات فراہم کرنے والے کسی بھی پاکستانی شہری یا کمپنی کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی گو کہ یہ کام پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید والی بات ہی موجود ہ حالات پر عائد ہو گی۔ سرکار کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ میں قائم ٹاس فورس یکم نومبر کے بعد غیر قانونی مقیم افراد کی جائیدادوں اور کاروبار کی نشاندہی کریگی‘ان لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرایا جائے گا جو پاکستانی شناختی کارڈ کے مالک ہیں لیکن پاکستانی نہیں ہیں‘۔ وزیرداخلہ سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ بندوق کے زورپر مسلط ایجنڈے پر پاکستانی اپنی زندگی نہیں گزاریں گے۔ ‘غیر قانونی تارکین وطن کی معلومات دینے والوں کو انعامی رقم دی جائے گی‘۔ جنوری 2023 سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں 24 خودکش حملے ہوئے، 14 خودکش حملہ کرنے والے افغان تھے۔ منگل کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف متعلقہ وفاقی وزرا، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور قانون نافذ کرنے والے تمام سول اور عسکری اداروں کے سر براہان ایک ہی چھت کے نیچے موجودتھے۔نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پاکستان میں موجود غیر قانونی غیر ملکیوں کو رضا کارانہ طور پر 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے، اب پاکستان میں کوئی بھی غیر ملکی بغیر ویزہ اور پاسپورٹ کے داخل نہیں ہوسکے گا۔ ہمارا ملک دنیا کا واحد ہے جہاں کوئی بھی منہ اٹھا کر بغیر پاسپورٹ یا ویزا کے چلا آتا ہے ایک بار تو مودی ہی آ گیا تھا۔ سو یہ فیصلہ تو ایک دن آپ کو کرنا ہی پڑنا تھا کہ کوئی بھی شخص، کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہمارے ملک اس تشدد پر عمل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
کیا پاکستانی عوام نے کبھی کسی عام انتخابات میں کسی جرنیل، جج، صحافی یا بیوروکریٹ کو ووٹ دیا ہے؟ تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ہم اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت بناتے ہیں جو ریاست چلانے والی مشینری کہلاتی ہے۔حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ریاست مستقل ادارہ ہے سو ہر حکومت کے سامنے ہمیشہ ریاست پاکستان ہی کھڑی ہوتی ہے جسے چلانا منتخب حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اوریہ ذمہ داری ہر حال میں پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں نے پوری کرنا ہوتی ہے۔ حکومت برسرِ اقتدار اور اپوزیشن کے وجود سے معرضِ وجود میں آتی ہے اور اپوزیشن کے بغیر جمہوری حکومت کا کوئی تصور نہیں ہوتا وہ اپوزیشن کا سربراہ خواہ راجہ ریاض ہی ہو۔ سو حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس عوامی مینڈیٹ ہوتا ہے صرف اُن کے اختیارات کا دائرہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لیکن اپوزیشن کے بغیر حکومت یا حکومت کے بغیر اپوزیشن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی کنوارہ شادی شدہ ہونے کا دعویٰ کرئے یا پھر کوئی خاتون بغیر نکاح کے کسی غیر مرئی خاوند کی دعویدار ہو۔ دنیا کا کوئی مینڈیٹ اتنی دیر تک عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام نہیں کر سکتا جب تک اُس کے پیچھے مینڈیٹ دینے والوں کی حقیقی طاقت موجود نہ ہو۔ اب اگر مینڈیٹ جعلی ہو گا تو اُس کے پیچھے کھڑی عوام طاقت بھی جعلی ہو گی جیسا کہ آپ نے عمران نیازی کی پہلی اور آخری حکومت میں دیکھایا نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کے خلا ف آنے والے مارشل لا کے نتیجہ میں دیکھنے کو ملا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومتیں ٹوٹنے پر سامنے آیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف آنے والے ”فوجی انقلاب“ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے۔
میں نے اپنی ہوش میں دو مارشل لا دیکھے اور بھگتائے ضیا الحق کی خوبی یہ تھی کہ اُس نے افغانستان کی جنگ میں جانے سے پہلے پاکستان میں موجود جمہوریت پسندوں، سوشلسٹوں، کیمونسٹوں، ریشنلسٹوں الغرض ہر وہ شخص جس کا اپنا دماغ کام کرتا تھا اپنے زیر عتاب رکھا لیکن پرویز مشرف کو ہنگامی بنیادوں پر جنگ کا حصہ بننا پڑا جس کیلئے پاکستانی جرنیل پہلے سے تیار نہیں تھے جبکہ ضیا الحق اور اُس کے جرنیلوں کو ہنری کسنجر کی معاونت میں تیاری کیلئے بہت وقت ملا اور اُس نے اُس وقت کا بھر پور فائدہ بھی اٹھاتے ہوئے 5 جولائی 1977 سے لے کر 27 دسمبر 1979 تک شمالی محاذ کو گرم رکھا تاکہ افغانستان کی روس نواز حکومت اپنی مدد کیلئے روس کو دعوت نامہ بھیج دے تاکہ جب روس اپنی بُری معیشت کے ساتھ افغانستان کے پہاڑی شکنجے میں آ جائے تو اُسے یہاں مصروف کر لیا جائے تاکہ وہ عرصہ دراز تک اپنی جانیں اور مال یہاں لٹاتا رہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ افغانستان میں دنیا بھر کے مسلم جنگجو روس کے خلاف برسرِ پیکار تھے اور اُن کی ریاستیں عالمی سرمایہ داروں کی کاسہ لیس بنی اِس عالمگیر جہادی تحریک کا حصہ بنی ہوئی تھیں۔ ڈالر سے لے کر دینار، شیکل سے لے کر ریال اور پونڈ سے لے کر درہم تک ہر کرنسی مشرقی یورپ سے لے کر افغانستان اور سعودیہ سے لے کر پاکستان تک کارآمد تھی۔ نائن الیون کے بعد بش نے کہا تھا کہ ”اب دنیا امریکہ کوایک نئے روپ میں دیکھے گی۔“ اور اس کے بعد دنیا بھر میں جو بربادی دیکھنے کو ملی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن افغانستان میں موجود امریکہ کے سابق دوست راتوں رات زیر عتاب آ گئے لیکن جب ہمارے کمانڈو جرنیل کو پتھر کے عہد میں پہنچانے کی دھمکی دی گئی تو ہم نے لاجسٹک سپورٹ کے نام پرامریکہ کا وہ سب کچھ بھی دے دیا جس کا مطالبہ بھی امریکیوں نے نہیں کیا تھا۔ ضیا اور مشرف میں ایک فرق بہرحال ہمیشہ رہے گا کہ ضیا الحق نے افغانستان کی جنگ میں جانے سے پہلے اور اُس کے دوران پاکستان میں روسی حمایت کو برباد کرکے رکھ دیا لیکن مشرف نے افغانستان وار میں جانے سے پہلے ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے اور طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کے اندر سے حمایت ملتی رہی اور پاکستان دھماکوں سے گونجتا رہا۔ ہم نے ریاست پاکستان چلانے کی ذمہ داری ہمیشہ اپنے منتخب نمائندوں کو دی ہے لیکن اگر ہمارے نمائندے ہی عوامی مینڈیٹ لے کر جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کے قدمو ں میں بیٹھ جاتے ہیں تو اِس میں قصور کسی ادارے کا نہیں اُن لیڈروں کا ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وقتاً فوقتاً ریاستی ملازموں سے حمایت اور اقتدار طلب کرتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ضیاء الحق اور اُس کے جرنیلوں کے غیر آئینی اقتدار کے خلاف لڑتی رہی اور محترمہ نے وزیر اعظم بنتے ہی مرزا اسلم بیگ کو جمہوریت کا تمغہ دے دیا میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ وہ کونسی جمہوریت تھی جس کیلئے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے خدمات سرانجام دی تھیں۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے افغانیوں کو واپس بھیجنے اور غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کرنے کی نوید سنا کر دل خوش کر دیا ہے۔ دعا گو ہوں کہ پاکستان کے اہلِ عقل اس پر قائم رہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں امن اور حوشحالی کے ساتھ اپنے خطہ زمین پر زندگی بسر کرسکیں جن کو افغانی اور افغانستان میں موجودہ طرز حکومت پسند ہے انہیں چند سال کیلئے افغانستان میں رہ کر آنا چاہیے کہ اِس نظام کیلئے اُنہوں نے بہت دعائیں مانگی ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہی نظام لانے کے خواہش مند ہیں تو پھر کیوں نہ اُس نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ آئیں واپسی پر اگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے تو میں اُن کے ساتھ اُن کی جدوجہد میں مل جاؤں گا۔ آرمی چیف عاصم منیر سے امید ہے کہ پاکستان میں خوش کش دھماکے کرنے والوں کیلئے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ آپ پاکستان کو دہشت گردوں اورغیر ملکیوں سے پاک کر جائیں یہ قوم آنے والے پچاس سال کیلئے ٹھیک ہو جائے گی اور آپ کو بھی یاد رکھے گی کہ یہ درد آپ کے ادارے نے ہی دیا تھا سو اگر آپ ہی اسے دوا دے دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ افغانوں کو واپس بھیجنے کے حوالے سے پاکستانی قوم نگران حکومت کے اس موقف کے ساتھ ہیں کہ منتخب حکومتوں کو بہت سے مصلحتو ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.