پبلک سیکٹر کرپشن

66

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے پبلک سیکٹر کرپشن کی عالمی رینکنگ جاری کر دی گئی ہے۔ دنیا کے 180 ممالک اور خطوں میں پبلک سیکٹر کرپشن کی سطح کے مطابق کی گئی اس رینکنگ میں ہر ملک کا صفر (0) سے سو (100) کے پیمانے پر اسکور کیا جاتا ہے جس میں 0 کا مطلب انتہائی بدعنوان اور 100 کا مطلب انتہائی شفاف ہے۔1995 میں جرمن پروفیسر جوہان گراف لیمبسڈورف نے پاساؤ یونیورسٹی میں ”کرپشن پرسیپشن انڈیکس“ تیار کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کرپشن کو صرف چند صورتوں میں ہی ناپا جا سکتا ہے اور کسی چیز کا علم اس وقت ہی ہوتا ہے جب اس کو ناپا جائے۔ کرپشن انڈیکس نو آزاد اداروں کی تحقیقات اور سروے پر مبنی ہے۔ پبلک سیکٹر میں کرپشن کے جائزے کے لیے کاروباری افراد اور تجزیہ کاروں سے دنیا بھر کے ممالک کے بارے میں رائے لی جاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا سالانہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کرپشن کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔پہلے سے ہی غیر مستحکم دنیا میں کرپشن کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہنے والے ممالک درحقیقت جمہوری زوال میں حصہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ آمروں کو بااختیار بنا رہے ہیں۔ سی پی آئی کے مطابق 124 ممالک میں کرپشن کی سطح مستحکم ہے، جبکہ تنزلی کے شکار ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کے انتہائی سنگین نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ کرپشن اور تنازعات ایک دوسرے کو پالتے ہیں اور پائیدار امن کے لیے خطرہ ہیں۔ ایک طرف تصادم کرپشن کے لیے افزائش کی جگہ بناتا ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام، وسائل پر بڑھتا ہوا دباؤ اور نگرانی کے کمزور ادارے رشوت اور غبن جیسے جرائم کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ کرپشن کے شکار ممالک اس وقت مسلح تصادم کا سامنا کر رہے ہیں یا حال ہی میں اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ کرپشن عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے اور سی پی آئی کے اعلیٰ اسکور والے ممالک بھی اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے انہوں نے بیرون ملک سے کالے دھن کا خیرمقدم کیا ہے۔ جس سے کلیپٹوکریٹس اپنی دولت، طاقت اور جغرافیائی سیاسی عزائم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو یہ بھی شکایت ہے کہ اگرچہ بہت سے ”صاف ممالک“ اپنے ممالک میں مثالی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن وہ اکثر دوسرے ممالک میں بدعنوانی سے منسلک ہوتے ہیں جیسا کہ کچھ بہترین ممالک کی سرکاری کمپنیاں جزوی طور پر بیرون ملک رشوت ستانی کے سکینڈلز میں ملوث ہیں۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے تمام ممالک میں سے نصف پر بھی اسی طرح کے رویے کا الزام ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں کی بین الاقوامی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے تباہ کن نتائج روس کے یوکرین پر حملے کے بعد واضح ہو گئے ہیں۔ انڈیکس کے مطابق عالمی سطح پر بدعنوانی کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔ عالمی اوسط گذشتہ 11 سال سے 100 میں سے صرف 43 پر بدستور برقرار ہے۔ دو تہائی سے زیادہ ممالک یعنی 68 فیصد کا اسکور50 سے کم ہے، جبکہ 26 ممالک ابھی تک اپنے سب سے کم اسکور پر آ چکے ہیں۔ 155 ممالک نے بدعنوانی کے خلاف کوئی خاص پیش رفت نہیں کی ہے یا 2012 سے انہوں نے مسلسل کمی کا رحجان رکھا ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ڈینیئل ایرکسن نے انڈیکس میں دئیے گئے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ لیڈر بدعنوانی سے لڑ سکتے ہیں اور ایک ساتھ امن کو فروغ دے سکتے ہیں۔ حکومتوں کو فیصلہ سازی میں کارکنوں اور کاروباری مالکان سے لے کر پسماندہ کمیونٹیز اور نوجوانوں تک عوام کو شامل کرنا چاہیے۔ جمہوری معاشروں میں، عوام بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد کے لیے اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں اور ہم سب کے لیے ایک محفوظ دنیا کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بدعنوانی میں درجہ بندی کی تشریح انفرادی ممالک کو بے نظیر اور مہلک میں تقسیم کرنے کا باعث نہیں بننی چاہیے۔ کیونکہ اس سے پتہ چلتا یے کہ کس ملک کے اندر قانون کی حکمرانی کو قبول کرنے اور سزا کا کتنا خوف ہے۔ پبلک سیکٹر میں کرپشن صرف برائی نہیں ہے کیونکہ یہ آبادی کے انفرادی گروہوں کے ساتھ غیر منصفانہ طور پر امتیازی سلوک کرتی ہے۔ بنیادی مسئلہ معاشی تناظر میں ہے۔ اگر ذاتی تعلقات یا احسانات کے لیے پیسہ ہاتھ بدل جاتا ہے، تو یہ ضروری اخراجات کے لیے دستیاب نہیں رہتا۔ اگر پیسہ دوسرے چینلز میں بے قابو ہو جاتا ہے تو پبلک سیکٹر کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو رشوت کی رقم معاشی چکر میں بھی رہتی ہے لیکن اس سے ضروری اخراجات نہیں کئے جا سکتے۔ بالواسطہ نتیجہ کے طور پر اقتصادی پیداوار گرتی ہے اور افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ انڈیکس کی ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بدعنوانی سے پاک مضبوط جمہوریت والے ممالک رینکنگ میں ہمیشہ سب سے اوپر نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ انڈیکس میں ڈنمارک 90 کے اسکور کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ فن لینڈ اور نیوزی لینڈ 87 کے اسکور کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ جبکہ ناروے، سنگاپور، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، آئرلینڈ اور لکسمبرگ اس سال ٹاپ 10 میں شامل ہو چکے ہیں۔ انڈیکس میں سب سے کم نمبر حاصل کرنے والا یعنی انتہائی کرپٹ ممالک میں سر فہرست اس سال صومالیہ ہے، شام اور جنوبی سوڈان دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ انڈیکس میں سب سے نیچے دس انتہائی کرپٹ ممالک میں وینزویلا، یمن، لیبیا، شمالی کوریا، ہیٹی، استوائی گنی اور برونڈی شامل ہیں۔ عوامی وسائل کا رخ موڑنا اور بلاتفریق عوام کی بجائے من پسند جماعتوں یا گروپوں کو فائدہ پہنچانا عوامی عدم اطمینان کا سبب بن سکتا ہے۔ وسائل کی تقسیم میں تفاوت اور امتیازی سلوک میں اضافے کے باعث پرتشدد مظاہروں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور جب وہ ایک بار پھوٹ پڑتے ہیں تو ان پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ 2017 سے 130 ممالک میں اہم سماجی احتجاج دیکھنے میں آیا۔ ان تمام ملکوں میں کرپشن سے متعلق پرتشدد عوامی ردعمل سامنے آیا اور احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ چیئر پرسن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ڈیلیا فریرا روبیو کہتی ہیں کہ کرپشن انڈیکس میں 50۔12 سے نیچے اسکور ہو تو یقینی طور پر ریاست کمزور ہوتی ہے۔ کرپشن نے ہماری دنیا کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ ریاستوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سخت محنت کریں اور کرپشن کی جڑیں ختم کریں۔ کیونکہ اس پیچیدہ ماحول میں کرپشن سے لڑنا، شفافیت کو فروغ دینا اور اداروں کو مضبوط بنانا مزید تنازعات سے بچنے اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.