ربیع الاول کا مبارک مہینہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر 12 ربیع الاول کو نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن پیارے نبیؐ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔ 12 ربیع الاول کو خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دن دینی محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ گلی محلے، سڑکوں شاہراوں کی سجاوٹ کی جاتی ہے۔ غریبوں میں کھانا وغیرہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ کچھ سالوں سے 12 ربیع الاول کے جلوس نکالنے کی روایت بھی چل نکلی ہے۔ جشن عید میلاد النبیؐ کے نام پر کچھ ایسی سرگرمیاں بھی ہوتی نظر آتی ہیں جو مناسب معلوم نہیں ہوتیں۔ اس تناظر میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کی ایک فیس بک پوسٹ میری نگاہ سے گزری۔ 12 ربیع الاول کے دن علامہ صاحب اسلام آباد سے واپس آرہے تھے کہ لاہور کے کسی علاقے میں میلاد نبیؐ کے ایک جلوس میں ان کی گاڑی پھنس گئی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ”جلوس کے آغاز میں بینڈ باجا تھا۔ پھر گھوڑوں کی بگھیاں۔ اور پھر ٹرالیاں۔۔۔۔ گلیوں میں جگہ جگہ ٹرالے کھڑے کر کے ڈیک سے جاری بلند آواز میں نعت کے نام پر موسیقی کانوں کے پردوں کو پھاڑنے کے لئے کافی تھی۔ مرد و زن کا اختلاط، نوجوانوں کی بے مقصد آوارگی اور خواتین کا بے حجاب باہر نکلنا کیا شریعت سے کھلواڑ نہیں ہے۔۔۔۔۔ بچوں کے ہاتھوں میں باجا، ڈھول کی تھاپ پر نوجوانوں کا رقص کرتے ہوئے سڑکوں کو بلاک کرنا اور یہ سب کچھ شتر بے مہار کی طرح چلتا جا رہا ہے۔ کوئی نگران ہے اور نا ہی کوئی قائد علماء سے۔ یہ سب کچھ طوفان بدتمیزی جشن عید میلاد النبیؐ کے نام پر ہو رہا ہے۔ کیا علماء اسے اوون کرتے ہیں۔ کیا یہی طریقہ ہے اس دن کے منانے کا۔ کیا دین کی تعلیمات یہ ہیں۔ اگر نہیں تو پھر اعتراف کریں کہ معاشرے کے سدھارنے کے لئے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں“۔
ڈاکٹر راغب نعیمی نے نہایت اہم معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی بات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ علامہ صاحب نے دراصل اپنے حلقہ یعنی علمائے کرام کو مخاطب کیا ہے اور ان کی توجہ اس مسئلہ کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ دینی معاملات کے متعلق میری معلومات واجبی سی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ جشن عید میلاد النبیؐ کو منانے کا آغاز کب ہوا۔ یا یہ کہ 12 ربیع الاول کے جلوس نکالنے کی روایت کیونکر شروع ہوئی۔ تاہم میں اتنا سمجھ سکتی تھی نبیؐ سے اظہار عقیدت کرتے، بسا اوقات کچھ ایسی باتیں سر زد ہو جاتی ہیں، جن کا اسلام یا نبیؐ کی تعلیمات سے واسطہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کی اور پہلی مرتبہ روضہ رسولؐ پر حاضری دی تو فرط محبت میں روضہ مبارکؐ کی ہری جالیوں کو اپنے ہاتھوں سے چھونے لگی۔ اس جگہ ڈیوٹی پر معمور خاتون نگران کہنے لگی کہ استغفر اللہ۔ ھذا شرک (یعنی یہ شرک ہے)۔ دراصل یہ میری محبت اور عقیدت کا اظہار تھا۔ مگر یہ بات میں وہاں موجود نگران کو سمجھانے سے قاصر تھی۔ بالکل اسی طرح جشن عید میلاد النبیؐ مناتے ہوئے اظہار محبت کے طور پر لوگ گلی محلوں، سڑکوں شاہراوں کو برقی قمقموں سے روشن کرتے ہیں۔ جھنڈے اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ یقیناً اسلام میں اس سب کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن نبیؐ کے امتی آپؐ کی محبت میں ایسا کرتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن کچھ سالوں سے ہم دیکھتے ہیں کہ میلاد کے نام پر ایسی باتیں بھی ہونے لگی ہیں جو مناسب معلوم نہیں ہوتیں۔ جیسا کہ علامہ صاحب نے تذکرہ کیا ہے۔ ایسے واقعات جا بجا دیکھنے میں آتے ہیں کہ جلوس کے نام پر راستے روکے جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں اس طرح راستہ روکنے کی ممانعت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو تنگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح جشن عید میلاد النبیؐ مناتے ہوئے بینڈ باجے، گھوڑے، بگھیاں، ڈھول وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کا نبیؐ کی تعلیمات سے کیا تعلق ہے؟ یہ اظہار عقیدت یا محبت کا کونسا انداز ہے۔ معروف فلمی گانوں کے طرز پر موسیقی کے ساتھ نعتیں سننا بھی سماعتوں کو بھلا معلوم نہیں ہوتا۔
نجانے یہ نت نئی بدعات کس طرح سے اتنے مبارک دن کے ساتھ نتھی ہو گئی ہیں۔ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم حضور اقدسؐ کے پیغام کو پھیلائیں۔ نبیؐ کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کریں۔ نہایت ضروری ہے کہ ہمارے علماء کرام اور دینی رہنما اس بات کا اہتمام کریں کہ لوگوں کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھائیں کہ اس دن کو منانے کا طریقہ کار کیا ہے۔ لوگوں کو بتانا چاہیے کہ محبت نبیؐ کے تقاضے کیا ہیں۔ علمائے کرام کو کھل کر ایسی باتوں سے منع کرنا چاہیے جو ناحق اس مبارک دن کے ساتھ منسلک ہو گئی ہیں۔
بر سبیل تذکرہ یوم آزادی مناتے وقت بھی بے ہنگم شور مچانے اور باجے بجانے کی بے ہودہ روایت پروان چڑھ چکی ہے۔ اس بات کی بھی کھل کر مذمت ہونی چاہیے۔ جشن عید میلا النبیؐ کا ذکر کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے مستونگ اور خیبرپختونخواہ کے علاقے ہنگو میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے۔ ظالموں نے دہشت گردی کرنے کے لئے 12 ربیع الاول کے دن کا انتخاب کیا اور نبیؐ کا میلاد منانے والوں پر حملہ آور ہوئے۔ان واقعات میں درجنوں لوگ جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ یقیناً یہ حملہ آور مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ شہید ہونے والوں کے درجات بلند فرمائے۔ زخمیوں کو صحت عطا فرمائے۔ دعا ہے کہ جلد یہ ظالم قانون اور اللہ کی گرفت میں آئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں.