12 ربیع الاول، رحمتوں برکتوں کے مہینے کا مقدس دن، عاشقان رسول ﷺ درود و سلام کے ہدیہ ہائے عقیدت وجہ تخلیق کائنات نبی رحمت کے حضور پیش کرنے میں مصروف تھے۔ ایسے میں ایک بد بخت دہشت گرد نے بلوچستان کے علاقہ مستونگ کی مدینہ مسجد کے قریب جہاں سے میلاد النبیﷺ کا جلوس گزر رہا تھا اپنے آپ کو بم سے اڑا لیا۔ خود کش دھماکہ میں ڈی ایس پی سمیت 55 افراد شہید اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ڈانڈے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را سے جا ملے۔ بلوچستان ٹی ٹی پی اور اس کی سرپرست ایجنسی ”را“ کا اولین ہدف، افغانستان میں طالبان کی حکومت یقین دہانیوں کے باوجود دہشتگردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام، ہمارا کھائیں ہم ہی پر غرائیں۔ اللہ دہشتگردوں پر بھوک اور خوف کا عذاب نازل فرمائے اور انہیں نیست و نابود کردے۔
قومی منظر نامے کے سربستہ راز کھلنے لگے ہیں۔ 2014ء سے 2018ء کے دوران جس پراجیکٹ کو پال پوس کر جوان کیا گیا اسے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا وہ تیزی سے خاتمہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 8 مارچ 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ کفارہ ادا کردیا گیا۔ بعد کے دنوں میں پراجیکٹ سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ جہازوں سے بندے اکٹھے کرنے والوں نے اپنا ٹھکانہ کرلیا۔ تمام آئینی اور قانونی اقدامات بد قسمتی سے پی ٹی آئی کے خلاف گئے۔ بڑا حکم آ گیا۔ ریاست دشمنوں سے کوئی رو رعایت نہیں ہوگی سب پکڑے جائیں گے۔ جس شخصیت کو حکومت بلکہ سیاست سے نکالنے کے لیے پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا وہ حکومت اور سیاست کی ضرورت بن گئی۔ نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس آرہے ہیں۔ واپسی کے خلاف پراپیگنڈا عوام میں کنفیوژن پھیلانے کی کوشش، قومی منظر نامے کا سربستہ راز یہ ہے کہ 27 یا 28 جنوری 2024ء کو عام انتخابات خان کے بغیر ہوں گے۔ پی ٹی آئی پابندی سے کسی طرح بچ گئی تو امیدوار نہیں ملیں گے۔ مل گئے تو پولنگ والے دن نہیں ملیں گے۔ خان اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کردیے گئے۔ فیض احمد فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ۔ ”مقام فیض کہیں راہ میں جچا ہی نہیں، وہ ایک جیل سے نکلے تو دوجی جیل گئے“۔ 804 کی بجائے قیدی نمبر 500 کا ٹیگ لگا۔ پنک شرٹ کالا ٹراؤزر، فوری طور پر منجی بسترا ڈیتھ سیل میں ملا۔ سائفر کیس کی سماعت جیل میں ہورہی ہے چالان مکمل کرلیا گیا اس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی چار دفعات 538، 53بی، 53سی اور 53ڈی شامل کی گئی ہیں۔ پہلی دفعہ کے تحت 14 سال قید یا سزائے موت جبکہ باقی تینوں میں دو دو سال قید ہوسکتی ہے۔ دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیگر لیڈروں کی گرفتاری کا حکم بھی دے دیا گیا۔ چائنا کے سنی دیول ٹائپ لیڈر عثمان ڈار کو سیالکوٹ اور فیصل آباد کے موٹر وے پر بڑھکیں مارنے والے فرخ حبیب کو چار ساتھیوں سمیت گوادر سے گرفتار کرلیا گیا۔ ”لے آئی پھر وہیں پر قسمت انہیں وہاں سے“ اعظم سواتی، معید پیر زادہ اور صابر شاکر کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔ جلسوں میں جلاؤ گھیراؤ کے نعرے لگانے والے شیخ رشید غائب ہوگئے۔ کوئی نہیں جانتا فیز 3 سے کہاں گئے۔ سختیوں کا دوسرا فیز شروع ہو گیا۔ صنم جاوید سمیت چار ایکٹیوسٹ خواتین ضمانت کی منظوری کے بعد جیل کے اندر ہی سے دوبارہ گرفتار کرلی گئیں۔ نہیں چھوڑیں گے سارے ”پھڑے جان گے“ بڑوں کا فیصلہ تبدیل نہیں
ہوا۔ پی ٹی آئی کے تمام بڑے لیڈر سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں۔ آزاد امیدوار ہی میدان میں ہوں گے۔ جن کے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گئے انہوں نے ڈھیل اور ڈیل کا شور مچانا شروع کردیا۔ سالہا سال تک خان کے کٹڑ مخالف سفید ریش فارغ البال اینکر پرسن وقت پیری خلل دماغ میں مبتلا ہوئے اور مشرف بعمران ہو گئے۔ گزشتہ دنوں ہوائی اڑائی کہ صدر علوی نے جیل میں خان سے تین گھنٹے ملاقات کی۔ خان بڑی دیر بعد دشمنوں کو معاف کرنے پر رضا مند ہوئے جس کے بعد ڈیل کے لیے مذاکرات شروع ہوگئے اور ڈیل طے پا گئی۔ (حیرت انگیز بات کہ صدر علوی، خان اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو ان مذاکرات کا علم نہیں) پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے مطابق لاکھوں افراد نے اس ٹوئٹ کو دیکھا اور خوشی کے شادیانے بجائے، ذرا سی عدالتوں سے ڈھیل کیا ملی ڈیل کا شور قیامت اٹھ گیا۔ ”پر اجے قیامت نہیں آئی“ لیکن بہی خواہوں کا اصرار ہے کہ ”ایک لیڈر پہ ہی موقوف ہے گھر کی رونق“ بقول مشاہد حسین سید زیرو سے ہیرو بننے والا شخص سنبھالا نہیں جا رہا۔ الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں خان کے ساتھ مدر آف آل ڈیلز کرنی پڑے گی۔ سید صاحب اور محمد علی درانی بن بلائے ثالث بن کر میدان میں اترے ہیں۔ محمد علی درانی کسی پارٹی کے نہیں جن کے ہونے کے دعویدار تھے وہ بھی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں لیکن سید صاحب تو ن لیگ کے سینیٹر ہیں۔ کیا انہوں نے اس قسم کا بیان اپنی قیادت کے مشورے سے دیا۔ مدر آف آل ڈیلز کے برعکس نگراں وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ الیکشن خان اور ان کی پارٹی کے بغیر بھی ممکن ہیں۔ بادی النظر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی۔ ”دال گلتی نظر نہیں آتی، کوئی امید بر نہیں آتی“ پانچ پیارے بکھر گئے۔ تین عہدوں سے فارغ ہوئے ایک ڈرے سہمے پرانی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ پانچویں دو ماہ سے جیل میں پڑے ہیں۔ سینگ بدستور اسٹیبلشمنٹ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ تندیئ باد مخالف سے آشیاں جل گیا۔ عقاب قصرِ سلطانی سے زمین پر آ رہے امیدوں کے چراغ بجھ گئے۔ خواہشیں دم توڑ گئیں۔ سارے موکل فرار ہوگئے۔ سابق خاتون اول کے سابق شوہر اول خاور فرید مانیکا بھی دبئی جاتے ہوئے گرفتار ہو گئے۔ پرویز الٰہی برے حالوں میں جیل میں پڑے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کے خلاف 70 مقدمات درج ہیں۔ پارٹی کے بچے کھچے لیڈر ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ممتاز اینکر پرسن جاوید چوہدری کے پروگرام میں مشاہد اللہ خان مرحوم و مغفور کے صاحبزادے ڈاکٹر افنان اللہ خان اور خان کے وکیل شیر افضل مروت میں ”مار گھونسا مار مکا مار لات، فاعلاتن فاعلاتن فاعلات“ کی جنگ و جدل سے بھرپور مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ مروت نے باپ کی گالیوں کے تبادلے پر افنان اللہ کو تھپڑ مارا۔ افنان اللہ نے مروت صاحب کو نیچے گرایا اور مکوں اور لاتوں سے ان کا قافیہ درست کردیا۔ معاف کیجئے اس قسم کا غیر مہذب رویہ دو چار دنوں کی بات نہیں جلسوں دھرنوں میں سالہا سال کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
لندن میں کیا چل رہا ہے؟ مشاورت، پلاننگ، واقفان حال کے مطابق ”پیغام“ میاں صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ عزیز از جان بیٹی نے ابو جان کو منا بھی لیا۔ بیانیہ بیان کی حد تک تھا۔ عملدرآمد کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ نواز شریف کی آمد اور انہیں جیل جانے سے بچانے کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لیں گے یا صرف جلسوں سے خطاب کریں گے۔ بعد کی باتیں ہیں جن کو ملک کا استحکام عزیز ہے میاں صاحب ان کی ضرورت ہیں۔ سعودی ولی عہد کے اہم ایلچی اور یو اے ای کی اہم ترین شخصیت کی نواز شریف سے ملاقاتوں کے بعد شکوک و شبہات کے اندھیرے چھٹتے نظر آرہے ہیں۔ کھیل کھلاڑی اور رولز آف بزنس تبدیل ہوں گے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق الیکشن کی تاریخ آتے آتے بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔ مقتدر حلقے ملک کی ترقی خوشحالی اور سیاسی استحکام پر ہرگز کمپرومائز نہیں کریں گے۔ چلتے چلتے گیلپ کی جانب سے ایک سیاسی تنظیم کی فرمائش پر جولائی میں کیے گئے سروے کا ذکر کرتے چلیں۔ گیلپ سروے شروع کرنے والے ڈاکٹر اعجاز گیلانی انتہائی شریف النفس، ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے کراچی یونیورسٹی میں ہمارے ان سے قریبی تعلقات رہے بعد ازاں اسلام آباد منتقل ہو گئے مگر ٹیلیفون پر رابطہ رہا۔ اب ان کے صاحبزادے یہ کام انجام دیتے ہیں۔ جولائی میں کیے گئے فرمائشی سروے میں بتایا گیا کہ فوج کی مقبولیت 88 فیصد، خان کی 60 اور نواز شریف کی 39 فیصد ہے۔ نگراں حکومت آنے پر آرمی چیف کے اقدامات سے جو نتائج سامنے آئے ان سے بلا شبہ فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے لیکن سانحہ 9 مئی کے بعد خان کی مقبولیت بھی 97 فیصد سے کم ہو کر 60 پر آگئی۔ ستمبر اور اکتوبر میں سزاؤں کے بعد مزید کم ہوسکتی ہے۔ ووٹنگ کے معاملہ میں خان اور نواز شریف میں 3 فیصد کا فرق ہے۔ نواز شریف کی آمد کے بعد اس پر رائے دی جاسکتی ہے۔ اکتوبر نومبر میں نیا تماشہ لگنے والا ہے۔ نیب کے حیران کن اقدامات سے بڑے بڑے لیڈر بھی جیل یاترا کرتے نظر آتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.