جسٹس فائز عیسیٰ مسائل لا سامن کرنے کیلئے تیار

14

ابتدائی طور پر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے بعد کم از کم عدالت عظمیٰ کی سطح پر ایک مثبت تبدیلی رونما ہونا شروع ہو گئی ہے۔ برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے مقدمات باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر ہو رہے ہیں، متنازع معاملات جنہیں کسی مصلحت کے تحت یا کسی بھی اور وجہ سے چھیڑا نہیں جا رہا تھا اب ان کی شنوائی شروع ہو گئی۔ اس کے علاوہ جو افراد اور ادارے، بشمول صدر مملکت عارف علوی صاحب اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کے وزرا، انہی جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلانے اور ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے میں ملوث تھے آج وہ نا صرف اپنی حرکات پر شرمندہ ہیں بلکہ اپنی کارروائیوں سے دستبردار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ویسے تو مسٹر عمران خان کے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد صدر مملکت عارف علوی کا بھی اس معاملہ پر یو ٹرن لے لینا کو ایسی اچنبھے والی بات نہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ صدر صاحب نے نا تو ریفرنس بھیجتے ہوئے اور نا ہی اس سے لاتعلقی کا اعلان فرماتے ہوئے اپنے عہدہ کے تقدس کا خیال رکھا۔ بہر کیف اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، جس کا مقصد چیف جسٹس آف پاکستان کے یکطرفہ طور پر ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو کم کرنا ہے، پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک فل کورٹ بینچ اس قانون کے خلاف نظرثانی کی درخواست کے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناعی جاری کیا تھا جبکہ فل کورٹ نے پہلی ہی سماعت کے بعد اس حکم امتناعی کو ختم کر دیا تھا۔ پی ڈی ایم کی سبکدوش ہونے والی حکومت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 متعارف کرایا تھا، جس کا مقصد بنچوں کے قیام اور ان کے سامنے مقدمات کو نمٹانے کے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ اس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی۔تاہم، اس پر عمل درآمد کو آٹھ ججوں کے بنچ نے روک دیا تھا، جس میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل تھے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے کئی مقاصد تھے جن میں چیف جسٹس سمیت سینئر ججوں پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دینا بھی شامل تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اعلیٰ ترین عدالت کی کارروائی میں شفافیت کو یقینی بنانا اور اپیل کے حق کا تحفظ کرنا تھا۔ مذکورہ قانون میں بنچوں کی تشکیل کا تعین کیا گیا تھا، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس اور دو سب سے سینئر ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقدمات کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل کے لیے ذمہ دار ہو گی، جس کے فیصلے اکثریت کے ووٹ سے کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے مطابق عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار میں آنے والے مقدمات کے لیے، بل میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ انہیں پہلے بحث کے لیے مذکورہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔ واضح رہے کہ وکلا تنظیموں اور سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس بات پر کافی زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ نا صرف مذکورہ قانون پر بلکہ دیگر اہم ترین معاملات پر غور کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک فل بنچ تشکیل دیا جائے تاکہ ان پر کوئی جامع فیصلہ سامنے آ سکے لیکن جانے کس سوچ یا مصلحت کے تحت سابق چیف جسٹس صاحب ایسا کرنے سے گریزاں نظر آئے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ کا حلف اٹھاتے ہی نے نا صرف فوری طور پرپریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا بلکہ اس کی کارروائی براہ راست میڈیا پر بھی نشر کرنے کے احکامات جاری کئے تاکہ معاملات کی شفافیت میں کسی کو کوئی شک نہ رہے۔ اس کے علاوہ ایک مدت سے التوا میں پڑے ہوئے فیض آباد دھرنا کیس میں اپیلوں سے متعلق کیس بھی سماعت کے لیے مقرر ہو چکا یہ کیس جانے کن وجوہات کی بنیاد پر سابق تین چیف جسٹس صاحبان، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عمر عطا بندیال، کے ادوار میں سماعت کے لیے مقرر نا ہوسکا تھا۔ بہرحال یہ معاملہ بھی سماعت کے لیے مقرر ہو چکا ہے اور آج نہیں تو کل اس کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں بلاوجہ کے التوا پر بھی سخت قدامات کا اعلان کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اب کوئی غیر ضروری التوا کا سوچے بھی نہ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اسی قسم کے فیصلے ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے لیے بھی کر لیے جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقینی طور پر نا صرف بین الاقومی طور پر پاکستان کی عدلیہ کی رینکنگ بہتر ہو گی بلکہ عوام کا بھی عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔ بہت پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ دلیر آدمی کبھی معاملات سے نظر نہیں چراتا، بلکہ مسلہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کرتا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ خصوصیت ہم آج کے چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ کی شخصیت میں دیکھ رہے ہیں۔ اللہ کرے ان کا عزم اور ثابت قدمی آنے والے دنوں میں بھی اسی طرح برقرار رہے۔

تبصرے بند ہیں.