نواز شریف کو سیاست کے پل صراط کا سامنا

51

جس دن میاں شہبازشریف نے بڑے بھائی کیساتھ کھڑے ہوکر ان کی واپسی کا اعلان کیا، واپسی کی باقاعدہ تاریخ دی اور استقبال کی تیاریوں کا آغاز ہوا، اُس دن سے لیکر آج تک ملک میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، غیر معمولی اضطرابیت پائی جاتی ہے، کوئی ایسا دن نہیں ہے جب ہم یہ نہ سنیں کہ نوازشریف کا واپس آنا آگ کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ ایسے ایسے دانشور جو اس اعلان سے قبل یہی طعنہ زنی کرتے تھے کہ نواز شریف کو فوری واپس آنا چاہیے، واپس کیوں نہیں آرہے، انہوں نے ایک سو اسی ڈگری کا یوٹرن لیکر سب کو دم بخود کردیا۔ ناجانے کونسی مجبوری آن پڑی کہ اپنے ہی موقف کے خلاف جانا پڑ گیا، خیر نواز شریف کی واپسی کے اعلان کے بعد دیگر کئی عجائب ہورہے ہیں۔
اچانک سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی سیاسی منظر نامے میں انٹری مارتے ہیں، صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور مفاہمت کا سبق پڑھانا شروع کردیتے ہیں، فوج سے محاذ آرائی نہ کرنے کے فوائد بیان کرتے ہیں، تاثر دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ فوج سے لڑائی کی جائے، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بڑھتا ہے، صدر علوی صاحب بچی کھچی پی ٹی آئی کے ایک وفد جس میں سابق سپیکر اسد قیصر، ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن اور دیگر کچھ لوگوں سے محمد علی درانی کی ملاقات کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی دوران پشاور اور لاہور میں سانحہ نو مئی کے ملزمان کی صرف ضمانتیں ہوتی ہیں، رہائی نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز ہوجاتا ہے "کہ محمد علی درانی کی ملاقاتوں اور ڈیل کا نتیجہ نکلنا شروع ہوگیا، ضمانتیں ہونا شروع ہوگئیں، اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے ڈیل کی کوششیں شروع کردیں“ اس مہم کا مقصد اور ٹارگٹ بہت باریک تھا، کیونکہ محمد علی درانی کی اس ساری مفاہمتی کارروائی سے تاثر یہی مل رہا تھا کہ جیسے انہیں اسٹیبلشمنٹ نے ایسا کوئی مینڈیٹ دیا ہے۔ ایک طرف میاں نوازشریف کی واپسی کے اعلان کو ن لیگ کے ورکر تازہ ہوا کا جھونکا محسوس کر رہے تھے کہ اب ان کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو ماضی کی اسٹیبلشمنٹ سے ہوا کرتی تھی، یعنی وہ اس امر پر مطمئن تھے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کی واپسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ کیسز کو بھی میرٹ پر ختم ہونے دیں گے۔
لیکن جب یہ مہم چلی تو ن لیگ کے کارکنوں کے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے، کہ نوازشریف کی واپسی کے اعلان کیساتھ ہی ہو ا کا رخ بدل رہا ہے یا پھر بدل گیا ہے، بد گمانی نے ڈیرے ڈالنا شروع کردیے۔ یہی اس مہم جوئی کا مقصد تھا کہ لندن میں نوازشریف اور پاکستان میں ن لیگ کے ورکر کو کنفیوژ کیا جائے۔ ان کے جذبات کو چھیڑا جائے اور پھر انہی جذبات میں بہہ کر وہ اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور پی ٹی آئی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اپنے لئے راہ ہموار کرلے۔
یہ پلاننگ تب ناکام ہوئی جب سانحہ نو مئی کے ملزمان جن کی ضمانتیں ہوئی تھیں ان کی دوبارہ گرفتاریاں ہوئیں، رہی سہی کسر محمد علی درانی اور عارف علوی کے بچھائے جال کی حقیقت عیاں کر کے پوری کردی گئی، بتایا گیا کہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں، انہیں ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے ڈیل کرائیں۔ درحقیقت محمد علی درانی، عارف علوی سے دیرینہ رفاقت رکھتے ہیں، اور اسی رفاقت کے پیش نظر یہ بھیڑ چال چلی گئی۔ جس کا ٹارگٹ ن لیگ تو تھی ہی ساتھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا بریگیڈ اور عام کارکن بھی تھے۔ انہیں طفل تسلیاں دینا بھی مقصود تھا تاکہ وہ حوصلے پست نہ کر بیٹھیں۔ پروپیگنڈہ اور جھوٹ ہی تو تحریک انصاف کا طرہ امتیاز ہے۔
سو نوازشریف کی واپسی تک ایسے بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے، ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ حالات پلٹا کھا جائیں اور نوازشریف واپس نہ آئے کیونکہ نوازشریف کی واپسی ہی گیم چینجر ہے، ن لیگ کی ستر سے اسی فیصد انتخابی مشکلات قائد مسلم لیگ ن کے جہاز کی پاکستان کی فضائی حدود میں انٹری سے دور ہوجائیں گی۔ باقی بیس فیصد مشکلات کو نواز شریف خود عوام میں اتر کر دور کر سکتے ہیں کیونکہ وہ واحد لیڈر ہیں جو اس وقت پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ عوام کے سامنے حقائق کیسے رکھنا ہیں اور انہیں کس انداز میں مطمئن کرنا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی وطن واپسی بالکل ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کی سیاست کا پل صراط عبور کرلیا، اس کے بعد آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ واپسی کے اعلان کے بعد غیر معمولی پروپیگنڈہ، ہلچل اور اضطرابیت پائی جارہی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ واپسی رک جائیں، نوازشریف کو چاہیے اپنے تمام پتے واپسی تک سینے سے لگاکر رکھیں۔ وقت سے پہلے پتوں کا ظاہر کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آ خر میں پی ٹی آئی کی ڈیل پر بات کریں تو، پاکستانیوں  نے نائن الیون کا ذکر سنا تھا، اس کی شدت اور نوعیت کو اس واقعے کے آفٹرشاکس اور کارروائیاں سے محسوس کیا تھا، کیونکہ ان کارروائیوں کا نشانہ مسلمان بنے اور پاکستان بھی متاثرین میں شامل ہے۔ پاکستانی عوام کے ذہن میں یہ نقش ہے کہ نائن الیون جیسا واقعہ کسی بھی ملک کی سا لمیت پر حملہ ہے، جب پاکستان میں سانحہ نو مئی ہوا تب عوام  نے محسوس کیا، اور اسے پاکستان کا نائن الیون قرار دیکر کارروائیاں بلا تفریق شروع کی گئیں، فوج  نے سب سے پہلے اپنا گھر صاف کیا، اپنے جرنیل کو فارغ کیا، جرنیلو ں کے خاندان جو ملوث تھے انہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، ایک مثال قائم کرنے کے بعد دیگر انتشاریوں کا رخ کیا گیا۔ سانحہ نو مئی پاکستان کا نائن الیون ہے، اس کے مجرمان کو معاف کرنا ایسے ہی ہو گا جیسے ہم  نے ایسے پرتشدد واقعات کو سیاست میں جائز قرار دے دیا۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان صرف ن لیگ کے نہیں فوج اور قوم کے مجرم ہیں۔ انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ملکی سالمیت کی حفاظت کے مترادف ہے۔

تبصرے بند ہیں.