سابق وزیر اعظم پاکستان نیازی صاحب اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں۔ یوں وہ اس جیل میں پہنچنے والے پانچویں وزیر اعظم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس بات کا امکان زندہ نظر آتا ہے کہ پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم بھی ایک نہ ایک روز اس جیل کو ضرور رونق بخشیں گے، پانچویں وزیر اعظم اڈیالہ جیل آنے کیلئے ایام اسیری شروع ہونے پر کہتے تھے کہ اٹک جیل ان کے شایان شان نہیں ہے انہیں اڈیالہ منتقل کیا جائے انکی طرف سے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی لیکن بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ اٹک جیل میں انکا دل لگ گیا ہے، دل لگنے کا کوئی سبب بظاہر نظر نہیں آتا لیکن دل کا کیا ہے وہ کسی بھی وقت کسی پر آسکتا ہے، تحقیق کرنا ہو گی اور انکے دل سے پوچھنا ہو گا
اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آ گیا ہے
وہ کون ہے جو آ کر خوابوں پہ چھا گیا ہے
نیازی صاحب کے ہم مرتبہ جناب خاور مانیکا بھی گرفتار ہو چکے ہیں انہوں نے اپنی پسند سے مطلع نہیں کیا کہ انکی پسندیدہ جیل کونسی ہے۔ عین ممکن ہے وہ بھی اڈیالہ جیل جانے کی فرمائش کریں، اس بات کا بھی امکان ہے کہ نیازی صاحب ہی کی بیرک میں قیام کرنے کے خواہشمند ہوں، مجرمانہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی خاتون کے دو خاوند ایک ہی وقت میں جیل پہنچ جائیں اور دونوں پر الزامات کرپشن کے ہی ہوں۔ پنکی پیرنی صاحبہ یہ ریکارڈ قائم کر چکی میں جسے توڑنا آسان نہ ہو گا۔ البتہ کوئی خاتون بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرے اور تین شادیاں کرے پھر اسکے تینوں خاوند ایک ہی قماش کے نکلیں اور کرپشن کے مقدمات کے نتیجے میں جیل پہنچ جائیں تو صرف اسی صورت یہ ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے، پنکی پیرنی ایک اور ریکارڈ بھی قائم کرنے والی ہیں وہ اس کے بہت قریب پہنچ چکی ہیں، وہ ریکارڈ اسوقت قائم ہو گا جب وہ خود جیل جائیں گی۔ عدت ختم ہونے سے قبل نکاح کرنا اور نئے خاوند کے ساتھ رہنا غیر شرعی کام بلکہ گناہ کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے۔ انکے نیازی نکاح کے گواہ اور نکاح خواں اس حوالے سے اپنی گواہی ریکارڈ پر لاتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ یہ نکاح کس طرح کن حالات میں ہوا۔ سابق چیف جسٹس بندیال جاتے جاتے توشہ خانہ مقدمے کی سزا میں ریلیف دے گئے ہیں، انہوں نے کوشش تو بہت کی کہ نکاح پر نکاح اور در حقیقت وظیفہ زوجیت کے نام پر ہونے والے زنا کو بھی ریگولرائز کرتے جائیں لیکن کر نہ سکے، انکا وقت پورا ہو گیا۔ انصافیوں کو ان سے کئی شکایات ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ انہیں
جناب بندیال سے سچی محبت نہیں ملی وہ پیار کی آڑ میں کچھ اور ہی کرتے رہے ہیں۔ انصافیوں کا تازہ ترین دکھ یہ ہے کہ یوٹیوبر عمران ریاض منظر عام پر آ گئے ہیں، انکا مورال کیسا ہے یہ تو ان سے ملنے والے ہی بتا سکیں گے لیکن صحت کمزور سی لگی۔ یہ جس کیلئے جیل گئے اسے جیل میں دیسی مرغ اور دیسی گھی میں روسٹ مٹن کھانے کو مل رہا ہے اسکی صحت بالکل ٹھیک ہے بلکہ پہلے سے زیادہ کیا گیا نظر آتا ہے۔ عمران ریاض نے بتایا کہ وہ خود ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں چلے گئے تھے انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا لہٰذا انہوں نے مبینہ روپوشی اختیار کی، وہاں شاید انہیں دال روٹی بھی پوری نہیں ملی۔ انکی غیر حاضری میں اکثر جاننے والے ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے کہ عمران ریاض کہاں ہے؟ اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی اطلاع کوئی جواب نہ ہوتا۔ انصافیوں سے پوچھا جاتا تو یہ ببانگ دہل کہتے کہ وہ مارا جا چکا ہے اب تو اسکی ہڈیاں بھی کتے چبا چکے ہونگے۔ یہ جواب سن کر بہت افسوس ہوتا تھا، خدا نہ کرے کسی کو ایسی موت ملے یا اسکی لاش کا یہ حشر ہو۔ منہ بھرکے ایسا کہنے والے کس قدر پتھر دل لوگ تھے، یہ لوگ آج افسردہ نظر آتے ہیں انہیں اس لاش کا انتظار تھا تاکہ آئندہ انتخابات میں لاش کے وارثوں کو ٹرک پے بٹھا کر ملک بھر کا چکر لگوا کر ووٹ بٹورے جا سکتے۔ اس سے قبل بے موت مارے جانے والے صحافی جناب ارشد شریف کی لاش کو استعمال کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں مذموم مقاصد رکھنے والوں کو ناکامی ہوئی۔ ارشد شریف کے قاتل پکڑے نہ جا سکے نہ ہی اُسے انصاف مل سکا، اب خبر آ رہی ہے کہ یہ کیس داخل دفتر کیا جا رہا ہے۔ قتل کے ملزمان تک نہ پہنچنے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ قتل غیر ملک میں ہوا، قاتلوں نے تمام نشانات مٹا دیئے پھر وہاں کی پولیس اور دیگر اداروں نے بھی قاتلوں کو تلاش کرنے میں تعاون نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ درجنوں نہیں سیکڑوں قتل ملک کے اندر ہوئے کیا سب کے قاتل گرفتار کر لیے گئے۔ جواب ہے، جی نہیں۔ قاتل خود مقتول کے جنازے کو کندھا دیتے، اسے قبر میں اتارتے رہے مگر کسی کو نظر نہ آئے۔ آئیے اب بائیس کروڑ افراد کے اجتماعی قتل اور انکے قاتلوں کی کچھ بات کر لیں۔ سوشل میڈیا پر تواتر سے ایک خبر گذشتہ ایک ہفتے سے گردش کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اسکی تردید میں کچھ نہیں کہا گیا، اس سے تاثر ملتا ہے کہ خبر اور اسکی تفصیلات صد فی صد درست ہیں۔ یہ تفصیلات ایک انگریزی اخبار نے بھی شائع کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کل پیدا ہونے والی بجلی اڑتالیس ہزار میگاواٹ ہے۔ جو بجلی عوام الناس تک پہنچائی گئی وہ چھبیس ہزار میگا واٹ ہے جبکہ عوام کو جو بل ارسال کیے گئے اور رقم وصول کی گئی وہ ایک لاکھ پچھتر ہزار میگا واٹ کی ہے۔ کیا اس اجتماعی قتل کا سراغ لگانا بھی بے حد مشکل ہے، قاتلوں کی نشاندہی کیلئے آسمان سے فرشتے اتاریں جائیں تو پھر ایف آئی آر کٹے گی، اس کے بعد گرفتاریاں ہونگی اور سزاؤں سے پہلے ضمانتیں تیار ملیں گی۔ ایسا ہی اجتماعی قتل ایک مرتبہ محکمہ سوئی گیس نے انصافی حکومت میں کیا تھا لوگ چیخے، احتجاج بڑھا تو اس وقت کے وزیر محکمہ نے ٹی وی سکرین پر آ کر بتایا کہ ہم نے اوور بلنگ کی۔ انہوں نے مزید ڈھٹائی سے بیان کیا کہ یہ اوور بلنگ وزیراعظم نیازی کی منظوری سے کی گئی۔ اس اعتراف جرم کے بعد وزیر موصوف کا صرف محکمہ بدل دیا گیا۔ انہیں غیرت آئی نہ اسوقت کے وزیر اعظم کو کہ اس جرم کے بعد مستعفی ہوتے، گھر چلے جاتے اور قوم سے اپنے کرتوتوں کی معافی مانگتے۔ جیل میں بیٹھ کر دیسی مرغ اور دیسی گھی میں روسٹ مٹن کھانے والے نوجوان نسل کو جھانسا دے رہے ہیں کہ وہ جمہوریت بچانے کیلئے جیل بھگت رہے ہیں۔ انہیں ڈیل بھی مل رہی ہے اور ڈھیل بھی، عام آدمی کے ناک میں مہنگائی اور لوٹ مار کی نکیل ڈال رکھی ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.