پیاری سیاست الجھی ہوئی ہے مکمل طور پر گنجلک ہو چکی ہے 2017 میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے ہنوز سیاسی معاملات کسی کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں 3 سال 8 ماہ تک عمران خان نے بھر پور انداز میں سیاست کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کی۔ مار کٹائی، گالم گلوچ اور نفرت انگیزی کو فروغ دیا۔ نئی نسل کو ابھارا۔ آمادہ پیکار کیا۔ ویسے تو یہ ایک اچھی بات ہے کہ نوجوانوں کو ابھارا جائے، جدوجہد کے لئے تیار کیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کس مقصد کے لئے، کس منزل کی جانب سفر کرنے کے لئے، عمران خان نے نوجوانوں میں بغاوت کے جذبات بھڑکائے اور وہ یہ کام 2011 میں مینار پاکستان کے فقید المثال جلسہ عام کے انعقاد کے وقت سے ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے قیام کے وقت سے کر رہے تھے انجام کار 9 مئی 2023 میں وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا ریاستی نشانات و عمارات انکے غیض و غضب کا نشانہ بن گئیں۔
3 سال اور آٹھ ماہ کے دوران حکومت میں عمران خان نے بد انتظامی کے بھی ریکارڈ قائم کئے سرکاری مشینری مکمل طور پر برباد کر کے رکھ دی۔ رشوت خوری، سیاست پروری اور غیر قانونی حرکات کی بھرمار نے ریاست و سیاست کی چولیں ہلا دیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر نے جس معاشی بربادی کی بنیاد رکھی اسے معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی پالیسی نے بام عروج تک پہنچایا۔ پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گیا۔ 10 اپریل 2022 کو جب عمران خان کی حکومت کو ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کیا گیا تو اس وقت قومی سیاست اور معیشت ایک بحرانی کیفیت کا شکار تھی۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے معاملات کو سہارا دینے کی منظم کاوشیں کیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست کئے جس کے باعث پاکستان کے عالمی مالیاتی و زری اداروں کے ساتھ معاملات طے پانے لگے۔ دوست ممالک کی طرف سے بھی دست شفقت دراز ہونے لگا چین کے ساتھ رکے ہوئے معاملات بھی آگے چلنے لگے معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے۔ لیکن عالمی ادارے کی طرف سے قومی معیشت کو ”بیک آن ٹریک“ کرنے کی حکمت عملی پر چلنے کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ سونامی آنے لگا۔ توانائی کے شعبے کے بگاڑ پر قابو پانے اور گردشی قرضہ کم کرنے کی حکمت عملی نے بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونے لگا۔ عالمی مارکیٹ کے حالات، یوکرین جنگ اور دیگر حالات و واقعات نے بھی ہماری قومی معیشت پر اثرات مرتب کئے جن کے باعث مہنگائی ہونے لگی۔ قدر زر میں شدید گراوٹ اور روزگار کے مواقع کی عدم موجودگی نے بگاڑ میں اضافہ کیا۔ عامتہ الناس کی قوت خرید گھٹنے لگی اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے انکاری ہونے لگے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا حصول خواب بتا چلا جا رہا ہے ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے 16 ماہ کے دوران لاریب قومی معیشت کو مرکزی دھارے میں لانے کی منظم کاوشیں کیں اور انکے نتیجے میں لڑکھڑاتی معیشت سنبھل گئی لیکن عوامی معیشت کے کڑاکے نکل گئے اور کڑاکے نکلنے کا عمل ہنوز جاری ہے عمران خان دور حکومت کی پالیسیوں کے باعث معاشی سرد بازاری، معاشی نمو میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ، برآمدات میں کمی، عالمی قرضوں کی بھرمار اور سیاسی افراتفری کے باعث قومی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات ابھی تک اپنا آپ دکھا رہے ہیں لیکن اتحادی حکومت کی بروقت اور درست حکمت عملی کے باعث پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آیا ہے عالمی اداروں کے ساتھ معاملات بہتر ہو گئے ہیں پاکستان کی ساکھ بحال ہو گئی ہے نوجوان بلاول بھٹو زرداری کی ڈپلومیسی نے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے بھی نکالا ہے۔
نگران حکومت معاملات کو جوں کا توں آگے بڑھا رہی ہے الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے طے کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات جنوری 2024 میں منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ابتدائی ووٹر لسٹوں کے آویزاں کئے جانے کا اعلان ہو چکا ہے حتمی فہرست بھی اعلان کردہ تاریخ پر نشر کر دی جائے گی پھر 54 دنوں کے اندر اندر انتخابی معرکہ برپا ہو جائے گا۔ اس طرح ایک منتخب حکومت معاملات کو لے کر آگے بڑھے گی۔
لیکن سردست جو حالات برسر زمین نظر آ رہے ہیں جس طرح کی بے یقینی اور بے کسی ہمارے ہاں پرورش پا چکی ہے کیا الیکشن اس کا مداوا کر سکیں گے؟ غربت اور افلاس جس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں، سرکاری اداروں کی بد انتظامی اور ریاست کی بے توقیری جہاں تک جا پہنچی ہے اسے دوبارہ درست مقام تک لایا جا سکے گا؟ قدر زر میں گراوٹ اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا چنگھاڑتا عفریت دوبارہ قابو میں لایا جا سکے گا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ کسی نئے یا پرانے سیاست دان کے پاس نہیں ہے۔ نا امیدی اور مایوسی کے مہیب بادل چھائے ہوئے ہیں۔
سب سے اہم بات، فقط جنریشن وار کے اثرات نے نوجوانوں کو جس نہج پر ڈال دیا ہے سوشل میڈیا کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نسل، 240 ملین آبادی میں 63 فی صد نوجوان کیا سوچتے ہیں؟ دو کروڑ سے زائد نئے ووٹر جو انہی نوجوانوں میں سے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیائی دور میں آنکھ کھولی ہے وہ آنے والے انتخابات میں کس کو ووٹ دیں گے عمران خان تو ریاست کے باغی بن چکے ہیں، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان گزری نسل کے لوگ ہیں مریم نواز اور بلاول بھٹو اپنے خاندان کا بیگیج اٹھائے ہوئے ہیں۔ سراج الحق کی آواز بھی ایک خاص حد سے آگے جاتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے سردست ہمارے سامنے قومی یا صوبائی سطح پر کوئی ایسی شخصیت یا پارٹی نظر نہیں آ رہی ہے جو نئی نسل کے آدرشوں کی ترجمانی کر سکے۔ کسی کے پاس ایسا مثبت اور مسحور کن بیانیہ نہیں ہے جو 63 فی صد جوان نسل کو آمادہ پیکار کر سکے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عام انتخابات قومی منظر نامے میں کوئی مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکیں گے؟ جواب کے لئے ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔ انتخابات کے اعلان اور انعقاد تک اور پھر اس کے بعد قائم ہونے والی حکومت تک۔ دیکھتے ہیں اس منظر سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.