11 عام انتخابات، 2 مارشل لاء اور عام آدمی

23

خبر تھی کہ خاور مانیکا کا نام ای سی ایل میں ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے اوریہ بھی خبر تھی کہ عمران ریاض گھر واپس لوٹ آئے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہا گیا لیکن دونوں خبروں کی صحت کی درستی ثابت ہونے سے پہلے مجھے کالم بھیجنا تھا سو پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی نے مجھے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارادہ ظاہر کرنے کہ انتخابات کا انعقاد جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں کیا جائے گا اسی پر لکھنا چاہیے تھا کہ گزشتہ انتخابات میں پاکستانی عوام کے حصے میں کیا آیا؟ مجھے امید ہے کہ ایک دن اِس ملک میں انتخابا ت ہو کر رہیں گے کیونکہ اِس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور یہ انتخابات کے نتائج یا متوقع نتائج ہی تھے جنہوں نے طاقت کے مراکز کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کے ہارنے یا مقبول لیڈروں کے جیتنے کے خوف نے مجبور کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے من پسند نتائج حاصل کرسکیں اور اُن نتائج  نے پاکستان کو جس حال تک پہنچا دیا ہے وہ آپ کے سامنے ہیں۔ تجربہ کار وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی چھٹیاں منا کر حال ہی میں پاکستان سے روانہ ہوئے ہیں اور جاتے جاتے پاکستان کو بدحال کرگئے ہیں۔ قمر جاوید باجوہ، فیض حمید اور چیف ججزکی تجربہ گاہ میں تیار ہونے والا روبوٹ اپنے ہی سائنسدانوں پرحملے کا مرتکب ہو کر آج کل اپنے ذیلی روبوٹس سمیت جیلوں میں زندگی گزار رہا ہے۔ضیاء الحق کا تجربہ چوتھی بار پاکستان میں کرنے کی افواہ گردش کر رہی ہے۔ شہبازشریف اِس بار بھائی کو گھیر کر لا رہے ہیں پاکستان کے عوام کو پاکستانی سیاستدانوں سے نفرت ہو چکی ہے۔ پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے لیکن اُس کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا پاکستان دو لخت ہو گیا لیکن ہم نے جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے انتقال ریاست کو انتقال اقتدار پر فوقیت دی۔ 1977ء کے انتخابات میں پہلے دھاندلی کا الزام لگا اور پھر دیکھتے دیکھتے دھاندلی کی تحریک نظام مصطفی میں بدل گئی۔ میں آج سوچتا ہو ں کہ نظام مصطفی کی تحریک کے ذریعے پاکستان کی ہواؤں اورفضاؤں تک کو طالبانی کر دیا گیا تاکہ افغانستان وار کیلئے را میٹریل ملتا رہے اوربعد ازاں ایسا ہی ہوا۔ 27 دسمبر 1979 ء میں روسی فوجیں افغان حکومت کے بلانے پر افغانستان پہنچ گئیں اور ایک کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کا آغا ز ہو گیا۔ 1985ء کے غیر آئینی اور غیر جماعتی انتخابات نے پاکستان میں ایک نئی غیر سیاسی رجیم پیدا کردی جو آج تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اپنی جگہ بدل بدل کر سیاست کر رہی ہے۔
اگست 1988 ء میں پاکستان کے جرنیلوں کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اورنومبر 1988ء میں پاکستان میں عام انتخابات کرا دیئے گئے۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ شہید اسلامی تاریخ کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم بنیں لیکن اُن کی حکومت صرف اٹھارہ ما ہ چلی اور 1988 ء میں ناکام ہونے والی آئی جے آئی کی سازش کامیاب ہوئی جس کی مکمل کہانی اصغرخان کیس میں سامنے آئی اورنواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے لیکن 1993 ء میں غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے اختلافات نے نواز شریف کی اسمبلی اور غلام اسحا ق خان سے صدارتی محل چھین لیا۔ 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور فاروق احمد خان لغاری صدر پاکستان کے عہدہ پر براجماں ہوئے لیکن 1996 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اورفاروق لغاری کے اختلافات پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمہ کی وجہ بنے اورعوام ایک بار پھر فروری 1997ء  کے انتخابات میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت دیکھ رہے تھے۔ کارگل ایشوپر نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف کا اختلاف بڑھتا رہا اور آخر کار آرمی چیف کی پاکستان میں عدم موجودگی میں انہیں عہدہ سے ہٹا کرضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف نامزد کردیا لیکن افواج پاکستان نے اس فیصلے کو ماننے سے انکارکر دیا جس کے نتیجہ میں نا صرف نواز شریف کو اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ انہیں گرفتارکرلیا گیا۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ان کے طیارے کو بھارت میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ نواز شریف جیل سے معاہدہ کرکے سعودیہ چلے گئے اور پرویز مشرف نے ریفرنڈم کے ذریعے صدر بننے کے بعد ق لیگ تخلیق کرائی، دوسری سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور توڑ پھوڑ کے بعد الیکشن 2002ء کرایا اور نئی حکومت بنا لی۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ مشرف کے انتخابات کے نتیجہ میں پہلی بار پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی جبکہ اِس دوران تین وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ٗ چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز اقتدار میں رہے۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ء میں ہونے والے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کرلیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی دووزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف رہے۔ 2013ء میں نواز شریف کا ”اقبال بلند“ ہوا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں ادوھم مچا کررکھ دیا اور پھر پانامہ سے شروع ہونیوالی تفتیش اقامہ پرختم ہوئی اور نواز شریف کو اقتدار کو خیر باد کہنا پڑا مگر پارلیمنٹ نے اپنی مدت اس بار بھی پوری کی اور شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ الیکشن 2018 ء میں عدالتی صادق و امین عمران نیازی وزیراعظم بنے اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران نیازی کے دعووں نے عوامی خواہشات کاگراف بہت بلند کردیا تھا لیکن اس کی مایوس کن کارکردگی نے عوام کو بددل کردیا اورعمران نیازی کی اتحادی حکومت کی توڑ پھوڑ کے بعد پہلی بار پاکستان کا کوئی وزیراعظم عدم ِ اعتماد کے نتیجہ میں اقتدار سے فارغ ہوا۔ عمران نیازی نے اقتدار کیلئے میاں محمد نوازشریف کے بیانیے ”ووٹ کو عزت دو“ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا بھرپور ساتھ دیا اور جب میا ں نواز شریف کا موقف درست ثابت ہوا تو میاں شہباز شریف نے اقتدار کی لالچ میں ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ میاں نواز شریف سے چھین کر عمران نیاز ی کے سپرد کردیا اور دیکھتے دیکھتے عمران نیازی بوتل سے نکلاہوا جن بن گیا۔ جس نے پاکستان کے تمام اداروں کو بنیادوں سے ہلا دیا لیکن سوال یہ ہے کہ آج 53 سال بعد 11 عام انتخابات میں پاکستان کے عام آدمی کو ذلت کے سوا کیا ملا۔ نت نئے تجربات نے آج پاکستان کو بدترین غربت اور اداروں کی تباہی کے دہانے پرلا کھڑا کیا ہے اورچیف الیکشن کمیشن نے پھر جنوری 2024ء کے آخری ہفتہ میں الیکشن کرانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر کیا الیکشن موجود مسائل کا حل ہے؟ کیا ایک بے رحم احتساب کے بغیر الیکشن نئی لوٹ مار کا دروازہ کھولنے کے مترادف نہیں؟ کیا ہم کسی نئے تجربے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ حیرت ہے جو قوم طبیعت بہتر نہ ہونے پر تیسرے دن ڈاکٹر بدل لیتی ہے 53 سال سے ایک ہی عطار کے لونڈے سے دوا کیوں لے رہی ہے؟ آخر کیوں؟۔

تبصرے بند ہیں.