بجلی اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پاکستانی عوام کی چیخیں نکل گئیں، عمران خان اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا وہ اصل میں پاکستان کے کاروبار اور غریب کی تباہی کا پروانہ تھا، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں برامدات کو بڑھانے کی بجائے پچھلے قرض اور سود کو ادا کرنے کے لئے مزید قرض لئے گئے، آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2023 میں حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت نے مالی سال 2023 میں 13 ہزار 7 ارب روپے قرض لیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 60 ہزار 839 ارب روپے ہوگا۔
بڑھتی ہوئی شرح افراط زر خاص طور پر بجلی، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا جس سے عالمی اور پاکستانی مارکیٹ میں اشیاء کی فروخت کم ہوئیں جس سے فیکٹریاں بند ہونے کے خدشات بڑھ گئے، واضح رہے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی 50 فیصد بند ہے، مہنگائی کے بڑھنے کی دوسری وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی ریکارڈ گراوٹ شامل ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول 331 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔ دوسری جانب ڈالر کا آفیشل ریٹ 295 روپے ہے جب کہ ریلوے اور بسوں کے کرایوں میں تیسری بار اضافہ کیا گیا ہے، آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی کیونکہ بیشتر ایندھن درآمد ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے سے ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے تھرمل پروجیکٹس نجی شعبے (آئی پی پیز) کے پاس ہیں۔
پاکستان میں پاور سیکٹر کے اہم مسائل میں سے (capacity payments) کا مسئلہ بھی ہے جس کا تعلق آئی پی پیز کے لیے (rate of return) سے ہے جس کی گارنٹی حکومت نے دی تھی اور اس کا بوجھ بھی سرکاری خزانے پر ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ ٹرانسمیشن لاسز کم کریں، بجلی چوری روکیں اور بنیادی اصلاحات کریں۔ بجلی میں سولر انرجی اور پن بجلی کی مقدار بڑھائیں۔
ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جب کہ پاکستان میں 40 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ ایک وقت تھا ملک میں بھوک اور غربت سے تنگ آ کر کوئی خود کشی کرتا تھا تو میڈیا آسمان سر پر اْٹھا لیتا تھا، اب حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ لیکن ان مشکل حالات میں Economic Hitman جس کی تعریف جان پرکنز نے اپنی سوانح حیات میں کی، Confessions of an Economic Hitman۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور اْن کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ اِس مقصد کیلئے یہ مالیاتی ادارے ہٹ مین کے ذریعے پسماندہ ممالک کی لیڈرشپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے بڑی رقوم قرض لیں۔ جان پرکنز کے بقول عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے معاشی قاتلوں کا موثر آلہ ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اِن قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کردیا جاتا ہے اور پھر پاور ہاؤس، انفرااسٹرکچر اور انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیئے جاتے ہیں جبکہ اِن قرضوں سے ہونے والی کرپشن بھی لوٹ کر واپس مغربی ممالک پہنچ جاتی ہے۔ اِس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بالآخر اِن ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی ہر شرط ماننا پڑتی ہیں، پھر یہ ادارے اْن ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچنے کیلئے قرضے ری اسٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اِس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے دے کر عالمی مالیاتی اداروں کو اْن ممالک کی معیشت گروی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اْن ممالک کے قدرتی وسائل، تیل، گیس اور معدنی وسائل پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کر لیتی ہیں جبکہ اْن ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور اْن کے راستے دفاعی اشیاء کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے جن کے ذریعے امریکہ اور یورپ پاکستان جیسے ممالک پر حکومت کرتے ہیں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ بنتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے قیادت کی تبدیلی ضروری ہے ایسی قیادت جو دیانتدار اور قابل بھی ہو، پاکستان کی معیشت کو ملکی اور عالمی سازش سے بچا سکے گی۔ اچھی قیادت کے ساتھ مختلف شعبوں میں جدید علوم کو استعمال کرتے ہوئے زرعی شعبے کی پیداوار کو بڑھانے اور برآمد کرنے، آئی ٹی کے شعبے کو بہتر کرنے کے لئے سوفٹ وئیر پارکس بنائے جائیں جس سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے، بجلی سستی مہیاء کی جائے تاکہ پیداوار کے اخراجات کم ہوں اور عالمی مارکیٹ میں ہماری اشیاء کی طلب بڑھائے، برآمدات میں اضافہ ہو۔ بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور جیسے پراجیکٹس جلد مکمل کئے جائیں۔ ہمارے ملک کو دیمک کی طرح کرپشن کھا رہی ہے جس کو ختم کرنے کے لئے نیب کا موثر استعمال کیا جائے۔
تبصرے بند ہیں.