کینیڈامیں خالصتان سکھ رہنما کا قتل

72

کینیڈا کے شہر ونی پگ میں ایک اور سکھ علیحدگی پسند رہنما سکھدول سنگھ عرف سکھا ڈونیکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔سکھدول سنگھ بھارت میں سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ بھارتی ایجنسی این آئی اے نے ابھی اس کے خلاف وارنٹ جاری کیے تھے۔ سکھدول سنگھ کا تعلق خالصتان تحریک کے حامی بھارتی پنجاب سے تھا اور وہ کچھ برسوں سے کینیڈا میں مقیم تھا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل پر بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تناؤ جاری ہے۔کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو صوبے برٹش کولمبیا میں رواں برس 18 جون کو سکھ گرودوارہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کو ملوث قرار دیتے ہوئے بھارتی سفارت کار اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ کو ملک بدر کردیا۔ جس بھارتی سفارت کار پون کمار کو کینیڈا سے نکالا گیا ہے وہ کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا اسٹیشن چیف بھی تھا۔ بھارت نے کینیڈین حکومت کے اقدام پر جوابی اقدام میں کینیڈا کے سینئر سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ انٹیلی جنس نے قتل میں بھارتی حکومت کے تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ ہردیپ سنگھ کے قتل کا معاملہ جی ٹوئنٹی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اٹھایا تھا، بھارت قتل کی تحقیقات میں تعاون کرے۔
مودی سرکار خصوصاً خالصتان تحریک سے اتنا ڈر گئی ہے کہ اب وہ ہزاروں میل دور واقع ممالک میں موجود ایسے افراد کو نشانہ بنارہی ہے جو سیاسی اعتبار سے بھارتی سرکار کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔ ہردیپ سنگھ نجر نے ایک آزاد ریاست خالصتان کی شکل میں سکھوں کے علیحدہ وطن کی حمایت کی تھی اور جولائی 2020 میں بھارت کی طرف سے انہیں دہشت گرد نامزد کیا گیا تھا۔
دوسری جانب امریکا نے ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی قومی سلامتی کی ترجمان کے بیان پر برطانوی حکومت کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت پر سنگین الزامات پر کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت صرف اپنے ہمسایوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود سے ہزاروں میل دور واقع ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم اداروں کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کے مذموم عزائم پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔
کینیڈا کی سرزمین پرسکھ رہنما کے قتل پر پانچ اہم ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر آگئیں اور ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزامات کو انتہائی سنجیدہ قرار دے دیا۔امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں تعاون کرے اور آسٹریلوی وزیراعظم نے صورتحال کوتشویشناک قراردیا۔ برطانوی وزیرخارجہ جیمزکلیورلی نے کہا ہردیپ سنگھ کے قاتلوں کو انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہمارے سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کہا ہے کہ کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے بیان پر حیرانی نہیں ہے اور دنیا کو بھارت کے ہتھکنڈوں کا احساس ہونا چاہیے جسے وہ ’ایک ناگزیر اتحادی‘ سمجھتی ہے۔ ہم اپنے پڑوسی کی فطرت سے واقف ہیں، ہم جانتے ہیں کہ وہ کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ہم نے اپنی سرزمین پر بھارتی بحریہ کے انٹیلی جنس افسر کو پکڑا، وہ ہماری حراست میں ہے۔انہوں نے 3 مارچ 2016 کو پاکستان میں گرفتار ہونے والے سابق بھارتی بحریہ کے افسر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس نے اعترافی ویڈیو میں کہا کہ وہ ملک میں بھارتی ایجنسیوں کے لیے خفیہ اطلاعات جمع کرنے کے لیے آیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق 1.4 سے 1.8 ملین کے قریب بھارتی نژاد کینیڈین شہری ہیں۔ بھارت میں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں ہی ہے۔ بھارت میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن خالصتان پنجاب سے علیحدہ بنایا جائے، اس تحریک کے آغاز کے بعد بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں خونی بغاوت ہوئی تھی اور اس کا ہدف سکھ علیحدگی پسند تھے، اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا اور بالآخر اس مہم کو دبا دیا تھا۔اس بغاوت کی وجہ سے کانگریس رہنما وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل بھی ہوگیا تھا جنہیں 1984 میں ان کے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔
جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کْھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔ نریندر مودی اس موقع پر ٹروڈو سے کافی ناراض تھے۔
نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی مقبولیت اور بھارتی سفارتکاروں کے خلاف ’تشدد کو ہوا دینے‘ جیسے واقعات پر ناراض تھے جبکہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان معاملات کو ہوا دے کر بھارت ’کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔درحقیقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے ہی انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ ہے۔

تبصرے بند ہیں.