مدبرِ اعظم ﷺ

116

ربیع الاول کے مہینے کا آغاز ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں کائنات کی اہم ترین ہستی کا ظہور ہوا جسے کائنات کے خالق نے رحمۃ للعالمین قرار دیا اور قیامت تک کے لیے یہ بات طے کر دی کہ اس کی آخری ہدایت اور احکام کے لیے اس ہستی کی لائی گئی کتاب کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اسی ہستی کو جو خاتم النبیین ہے، میزان اور لوہا بھی عطا ہوا کہ جس کے ذریعے وہ لوگوں پر خدا کی حجت پوری کر دے۔ آپﷺ نے اپنی تعلیم کے ذریعے انسانیت کو مظلومیت سے عزت کا درجہ عطا فرمایا۔ یہاں ہم سیرت طیبہﷺ کے چند پہلوؤں کوبیان کرنے کی سعادت حاصل کریں گے: دنیا کی موجود تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک مثالی مملکت کی تشکیل و قیام کے لیے فلسفیوں اور مذہبی مثالیت پسندوں نے ہر دور میں بحث کی ہے اور بعض عملی تخیل پرستوں نے ان مباحث کی روشنی میں ان خیالات کو عملی طور پر وجود میں لانے کی بھی کوششیں کی ہیں۔ سقراط و افلاطون سے لے کر ایچ جی ویلز نے تخیلیاتی مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے۔ سقراط نے جہاں ریاست کا نقشہ پیش کیا وہاں ساتھ ہی اقرار بھی کیا کہ اس کا عملی نمونہ آسمانوں پر ہی بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بات تاریخی حقیقت کا درجہ حاصل کر چکی ہے کہ رسول کریمﷺ کے علاوہ دنیا کے روحانی و سیاسی رہنماؤں میں سے کسی نے بھی اپنے خیالات و الہامات کی روشنی میں کسی مثالی مملکت کے قیام کے لیے کامیاب کوشش نہیں کی۔ آپﷺ کی ذات ہی وہ مدبرِ اعظم ہے جس نے قیامت تک کے لیے ایک مثالی مملکت کے سیاسی، معاشی، سماجی سمیت ہر شعبے کے لیے قابل عمل خاکے اور عملی نمونے اپنے اسوہ حسنہ کی شکل میں پیروی کے لیے چھوڑے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے ایسے نصب العینوں کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جس میں انسانی فطرت اور کوتاہیوں کو سامنے رکھا گیا۔ آپﷺ نے مملکت کے قیام کے لیے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور انسانی استعداد کو سامنے رکھا، جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے محنت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور محنت کا استحصال کرنے والوں کی بیخ کنی کی۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ”الکاسب حبیب اللہ“ یعنی محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے، محنت کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ آنحضرتﷺ نے خود مزدوروں کی طرح کام کر کے تاقیامت محنت کی عظمت پر مہر ثبت کر دی۔ یہ آپﷺ ہی کے ارشاد ات ہیں کہ پسینہ سوکھنے سے قبل مزدور کی اجرت اس کے حوالے کر دو، اور وہ
شخص جو زمین کاشت کرتا ہے وہی زمین پر بہتر حق رکھتا ہے۔ آپﷺ نے جس فلاحی مملکت کی داغ بیل ڈالی اس میں مزدور، کسان، گلہ بان اور طالبان ِعلم اور متدین تاجروں کو بھی شامل فرمایا۔ آپﷺ ایک عادل مملکت کو معاشرتی عدل اور فرد کی معاشی خوشحالی سے مربوط فرماتے تھے۔ آپ تاریخ کے پہلے معاشی منصف ہیں جنھوں نے سرمائے پر محصول عائد کیا اور کلانیت کے قانون کو ختم کیا، جس کی رو سے بڑا بچہ ہی جائیداد کا بلا شریک وارث ہوتا تھا اور اس کے چھوٹے بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار محروم رہتے تھے۔ آپﷺ نے طفیلیت اور بغیر کمائی ہوئی آمدنی پر گذر بسر کرنے کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ آپﷺ پہلے عظیم الشان مذہبی معلم ہیں جنہوں نے واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمایا کہ افلاس آدمی کے لیے سب سے بڑا عیب ہے اور غربت انسان کو کفر کے کنارے لاکھڑا کرتی ہے اور مشہور حدیث مبارکہ ہے کہ افلاس سے انسان کا منہ دونوں جہانوں میں سیاہ ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو انسان اپنے خاندان کے لیے روزی تلاش کرتا ہے، اس کا یہ عمل بھی خدا کی عبادت ہوتا ہے۔ آپﷺ نے ہر ایماندارانہ کام کو عبادت میں تبدیل فرما دیا۔ جہاں آپؐ نے محنت کا حکم فرمایا اور غربت و افلاس کی حوصلہ شکنی فرمائی وہاں آپﷺ دولت کی کثرت سے بھی اندیشہ مند تھے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”میں تمھاری غربت سے اتنا متردد نہیں ہوں، جتنا کہ تمہارے تمول سے“۔ کیونکہ دولت کی کثرت انسان کو عیش پسند، بے حس اور ظالم بنا دیتی ہے اور انسان ناجائز طریقہ پر جمع شدہ دولت کا اتنا ہی غلام ہوتا ہے جتنا کہ غربت سے ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ معاشی فراغت وحفاظت کا معتدل راستہ ہی معاشرتی عدل اور حقیقی تہذیب کی راہ ہے۔ آپﷺ نے ایسے نظام کی بنیاد رکھی جو معاشرہ کو مالدار اور نادار طبقات میں منقسم ہونے سے روکتا ہے۔ آپﷺ کی پوری حیات مبارکہ اس عظیم کام کی سرگزشت ہے جس نے مردہ و افسردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دی۔ آپﷺ ان تمام قبیلوں کو وحدت بخشی جو آپس میں بر سر پیکار تھے۔ آپﷺ نے علم و دانش کی قدرو منزلت کا اعلان کیا۔ عقلیت کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ سود کی تمام شکلوں میں ممانعت فرمائی، سرمایہ اور محنت میں اشتراک کی بنیاد رکھی، ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی، انفردی خیرات کے ساتھ ریاستی سطح پر بھی غرباء و مساکین کی مدد کا انتظام مقرر کیا۔ منصفانہ قانون وراثت کا انتظام کیا۔ بغیر محنت کی کمائی کو ممنوع فرمایا۔ مملکت کا ڈھانچہ ایسے خطوط پر استوار کیا کہ خیرات لینے والے شاذ و نادر ہوئے، امن و امان کا نظم ایسا تھا کہ ایک عورت سونے کے زیورات کے ساتھ بلا خوف و خطر سفر کرتی۔ عورتوں کو عزت و تکریم عطا فرمائی۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور غلامی کو ایک عارضی رواج کا تصور دیا۔ یہ سیرت مبارکہ کے فقط چند پہلو ہیں۔ جاوید غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ہستی مبارکہ ایک دن اور مہینے کی نہیں، وہ تو ہر دن ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے، بلکہ صبح دم دن ڈھلے ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ اشھد ان لا الہٰ الّا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ۔ تاقیامت انسانیت پیغمبر اسلامﷺ کی ممنون و مشکور ہے۔ لاکھوں درو د و سلام آپﷺ پر۔
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلا ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تبصرے بند ہیں.