نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے قوم کے ”کڑاکے “ نکال کررکھ دئیے ہیں لیکن مجھے آپ سے گلہ اس لئے نہیں کہ میں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا ہوا۔ ورنہ یقینا میں اپنے مینڈیٹ کی توہین پر شدید احتجاج کرتا لیکن پھرمیں سوچتا ہوں جسے میں نے مینڈیٹ دیا تھا اُس نے بھی کونسا پاکستانی عوام کے ساتھ کیا ہوا کوئی وعدہ پورا کیا تھا اورجنہوںنے میرے مینڈیٹ کے مخالف ووٹ دیا تھا انہیں بھی اقتدار کا موقع ملا یعنی پی ڈی ایم کوتو وہ بھی قہر بن کرنازل ہوئے ۔ اب نگرانوں کی حکومت ہے کہ مزید بحرانوں کو جنم دے رہی ہے ۔ ہم ایک مہا بحران میں پھنس چکے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں لیکن کسی ایک شخص کے پاس بھی اِ س کاحل نہیں ۔لوگوں سے اب حال چال پوچھیں تو اُن کی خشک آنکھوں میں صرف درد دکھائی دیتا ہے کہ آنسوﺅں کو خشک ہوئے مدت ہو چکی ۔ بری معیشت کی سب سے بڑی برائی یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی کو قابل احترام نہیں رہنے دیتی کچھ بھی مقدس نہیں رہتا احترام کے بت چکنا چورہو جاتے ہیں ۔
قبل از اسلام عرب میں ایک قبیلہ بنو حنفیہ کے نام کا ہوا کرتا تھا جنہوں نے ایک آٹے کا بت بنا رکھا تھا ۔جس کی وہ پوجا کرتے منتیں مانگتے بیٹے بیٹیا ں مانگتے اپنی فتح اور دشمن کی شکست و نابودی کی دعائیں مانگتے اورپھر عرب میں شدید قحط پڑ گیا۔لوگ دانے دانے کوترس گئے تو انہوں نے سب سے پہلے اُسی بت کو نگل لیا جس کے سامنے وہ روزانہ سجدہ ریز ہو تے تھے ۔ پس ایک بات تو ثابت ہوئی کہ جو خالق اپنی مخلوق کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا اُس کی مخلوق اُسے نگل جاتی ہے اورضرورتیں پوری کرنے والا نیا بت اُس کی جگہ تراش لیتی ہے ۔مذہب انسانی اخلاقیات کا تعین کرتا ہے اور بھوک اخلاقیات کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے سو میں حکمرانوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی تاریخ میں مذاہب کی تبدیلی کی وجہ بتوں کی کمزوری نہیں بتوں سے وابستہ امیدوں کا پورا نہ ہونا تھا جب انسان ماضی میں خداﺅں کا انکاری ہوتا رہا ہے تو کسی دنیاوی حکمران کی اوقات یا حیثیت کیا رہ جاتی ہے ۔اے ! گزشتہ باون سال (بعد از بنگلہ دیش) سے مسند پاکستان پر وقتاً فوقتاً براجمان رہنے والے حکمرانوں آج تمہاری بری پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستانی عوام غربت کے اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں باغیرت قومیں تخت و تاج اچھال دیتی ہیں لیکن تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ” پکی دیواروں “ کو ٹکریں مارنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں جو خود کشی کے مترادف ہیں کہ ریاست کے ساتھ ریاستی طاقت سے کم طاقت کے ساتھ ٹکرانا اپنا سیاسی قتل کروانے
کے مترادف ہوتا ہے ۔ جن دوستوں کا خیال یہ ہے کہ انقلاب بھوک سے آتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب صرف تربیت سے آتا ہے کیونکہ انقلاب کی سائنس جمہوری اقدار سے یکسر مختلف ہوتی ہے کیونکہ اگر بھوک سے انقلاب آنے ہوتے تو سب سے زیادہ انقلاب افریقہ میں آ چکے ہوتے ۔ تربیت کے بغیرکسی بے سمت ہجوم کا سٹرکوں پر نکلنا سوائے انارکی کے کچھ نہیں ہوتا جیسے فرانس میں ہوا ۔ چونکہ اُس وقت تک ہم نے سائنسی انقلاب کی کوئی شکل نہیں دیکھ رکھی تھی سو ہم نے فرانس کی تعبیر بھی انقلاب سے کردی حالانکہ فرانس کے انارکسٹوں کے پاس صرف حکمران اشرافیہ کے خلاف نفرت کا کارگر ہتھیار تو تھا لیکن کوئی متبادل نظام اُن کے پاس بھی نہیں تھا جس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ شاہِ فرانس اور ملکہ کو قتل کرنے اورمحل پرقبضہ کرنے کے بعد یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اب انہیں کیا کرنا ہے ۔ انقلاب فرانس کا دنیا کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ روسو کا سوشل کنٹریکٹ اپنی منشا ہائے عمومی
(General Will) اور ایڈم اسمتھ کے سرمایہ دارنظام کی آمیزش سے جدید جمہوریت معرض وجود میں آ گئی ۔ ایڈم اسمتھ نے معاشیات کو بالکل نئے ڈسپلن کے طور پر ایک واضح طور پر متعین شکل دی۔ اُس کی شہر ہ آفاق کتاب ”قوموں کی دولت” کا معاشی نظریہ یہ ہے کہ جب حکومت مارکیٹیوں کو کھلا چھوڑ دیتی ہے تو وہ بہترین کام کرتی ہیں اور بہتر نتائج فراہم کرتی ہیں لیکن اسی معاشی نظریے نے دینا بھر کی مارکیٹس اور اُن کے چلانے والوں کو بے رحم منافع خور بنا دیا جس سے عام انسانوں کی زندگی مشکلات میں مبتلا ہو گئی لیکن شاید اُس وقت یہی بہتر سمجھا گیا کیونکہ اُس وقت تک مارکس نے سرپلس ویلیوکی سائنسی تشریخ نہیں کی تھی ۔ اسی طرح میکرو اکنامکس کے بانی جان مینارڈ کینز نے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط بنیادیں فراہم کردیں جس کی بگڑی ہوئی شکل آج مہاسرمایہ دارانہ نظام (Ultra-Capitalism)کی شکل میں انسانوں کے سامنے وحشیانہ رقص کر رہا ہے ۔ میں اِس بات پر آج بھی یقین رکھتا ہوں کہ جوریاست اپنے شہریوں کو بے رحم عالمی منڈی کے سودخوروں اوراعداد کے جادوگروں کے سپرد کردیتی ہے ۔اُس کو ہمیشہ عوامی نفرت کا مقابلہ کرنا پڑتاہے لیکن روسو کا سوشل کنٹریکٹ بہرحال آج بھی قابل عمل ہے کیونکہ عوامی منشا کا شعور ایک عالمگیر سوچ بن چکی ہے اور دنیا میں انسانوں کی سب سے بڑی اکثریت اس پر متفق ہے۔ سو دنیا بھرکی ریاستوں کو اِس سوچ کے نتیجہ میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ دنیا بھر کی ریاستوں کے لئے درد سربن ہوا ہے ۔
پاکستان مکمل طور پر ایک کنزیومر سوسائٹی بنادیا گیا ہے جس کے پاس بیچنے کیلئے سوائے غیرت کے کچھ بھی نہیں جبکہ خریدار پاکستان کے ہرگھرمیں موجود ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ آئی ایم ایف سے کیے ہوئے وعدے پورے کرنا پڑیں گے میرے لئے حیران کن ہے۔ ایک ایسا شخص جس کو پاکستانی عوام نے حکمرانی کا مینڈیٹ ہی نہیں دیاوہ پاکستانی عوام سے جس لب و لہجے میں بات کر رہا ہے میری سمجھ سے باہر ہے ۔ آپ یقینا آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاہدوں کی پاسداری کریں لیکن آپ کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے بہت پہلے آئین پاکستان میں ریاست نے پاکستانیوں سے بھی بہت سے وعدے کر رکھے ہیں۔ جن کی پاسداری بارے کبھی نہیں سوچا گیا ۔ ریاست کا اپنے شہریوں پر حق ہوتا ہے لیکن حق ہمیشہ فرائض کی ادائیگی کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔اگر ریاست اپنے فرائض پورے نہ کرے جو درحقیقت عوام کے حقوق ہیں تو پھر ریاست عوام سے کیسے توقع کرسکتی ہے کہ عوام بدترین ذلت میں بھی ریاست کے احکامات کی بجاآوری کیلئے سرگرداں رہے گی ۔ آئی ایم ایف سے سالہاسال قرض لے کر عوام کو مقروض کرکے رفوچکر ہونے والے حکمران اگر بار بار لا کر عوام پر مسلط کیے جائیں گے تو ایک دن ہمیں بدترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مجھے قوی امید ہے کہ ابھی پٹرولیم مصنوعات میں اور اضافہ ہو گا لیکن بالادست طبقات کی سہولتوں اورعیاشیوں پر کوئی کٹ نہیں لگایا جائے گا ۔ عوام کی قربانی تو اِس قدر ہو چکی ہے کہ وہ مزید کسی قربانی کی پوزیشن میں ہی نہیں ۔ ہمارے بچوں کو صرف جنگ سے خطرہ نہیں انہیں بھوک جہالت بیماری بیروزگاری لاقانونیت اورریاست کی بے توقیری سے بھی بدترین اورشدید ترین خطرات لا حق ہیں ۔نگران وزیر اعظم اور نگران وزراءاعلیٰ کی اب تک کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت پاکستانیوں کی موجودہ ابتر حالت ہے لیکن یہ بہت دیرتک نہیں چلے گا ۔ عوام اپنے حکمرانوں کو غم و غصہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بھوکے ننگوں کا یہ ہجوم اگر بغیر کسی لیڈر اور ایجنڈے کے سڑکوں پر نکل آیا تو ہمیں درد کے انگنت افسانوں کو جنم لیتے اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا ۔ بس ! بہت ہوچکا اب پاکستانی عوام کی سانس بحال کرنے کیلئے بھی کوئی اہتمام کیا جائے ورنہ آپ کی پروٹوکول گاڑیا ں اور آپ کی پریس کانفرنسیں صرف آپ کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے رہی ہیں ۔ چیئرمین نیب آئی ایم ایف کے کسی ڈائریکٹر کو لگایا جائے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ انہوں نے قرض کسے دیا تھا اور وہ رقم اِس وقت کہاں پڑی ہے ۔ پاکستانی عوام پر آئی ایم ایف سے لیا گیا 10 فیصد قرض بھی استعمال نہیں ہوا سو ہم اسے دینے کے پابند بھی نہیں ہیں ۔ اگر شاہ خرچیاں نہ رکیں تو آپ کو ایک دن آئی ایم ایف کو قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرنا پڑے گا اور وہ دن انتہائی بُرا دن ہوگا کہ اُس دن عوام نے حکمرانوں کے کڑاکے نکال دینے ہیں ۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.