پاکستان میں ہمیشہ سے ایک آسودہ کلاس رہی ہے۔ ملک میں جتنے بُرے سے بُرے حالات ہو جائیں ان کے لطف و اطمینان میں کمی نہیں آتی۔ کاروباری طبقہ ہو یا زمیندار، حتیٰ کہ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں پر بھی وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ بعض اوقات تو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی ٹوٹتے ہیں۔ ایسا ہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تک کو شدید مشکلات دیکھنا پڑتی ہیں اور بیوروکریٹ تو عین اسی لمحے خود کو معتوب و مظلوم تصور کرنا شروع کر دیتا ہے جس پل اسے کسی بہتر پوسٹ سے ہٹا کر گھر بٹھا دیا جائے یا پھر کسی ماڑی پوسٹ پر لگا دیا جائے۔ عوام بیچارے سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہے۔ عام آدمی پر تو آئے دن شکنجے کسے جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ یعنی ملک کے تقریباً ہر شعہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقے کو اونچ نیچ سے گزرنا پڑتا ہے سوائے طفیلیوں تابڑ توڑیوں کے۔ طفیلیے تابڑ توڑیے ایک ایسی سپی شیز یا نسل ہے جن کی گزر بسر، گزر اوقات، مزا مِیری اور دلبر دلداری ہمیشہ دوسروں کی کمائی، محنت، جدوجہد اور حاصل وصول پر ہوتی ہے۔ پہلے زمانے میں یہ شاہی دربار اور دیگر ذیلی حکومتی اداروں میں جھولی چُک کے طور پر پائے جاتے تھے جو حکمران یا فرمانروا کے بدلتے ہی نہایت پھرتی سے پہلو بدلتے اور نئے ظل ِ الٰہی کے پہلو میں اتنے ہی ادب و احترام سے رطب اللسان نظر آتے تھے جتنا کہ اس سے پہلے والے کے لیے ہوا کرتے تھے۔ آج کے زمانے میں یہ نجی سطح پہ ہر سرمایہ دار یا با اختیار شخصیت کے چرنوں میں نظر آتے ہیں اور ادارہ جاتی سطح پر ان کا پسندیدہ شعبہ سیاست، صحافت اور ادب ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ کوئی کوئی طفیلیا تابڑ توڑیا اتنا چوکس بھی پایا گیا ہے جو
بیک وقت متذکرہ بالا تینوں شعبوں میں سرگرم عمل پایا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ عملی صحافی ہو نہ ہو کالم نگار ضرور ہوتا ہے۔ اس کے لیے بطور سیاسی مشیر ہلکی پھلکی سیاست ہمیشہ بائیں ہاتھ کا کھیل رہی ہے اور ادب تو اس کے لیے مفادات حاصل کرنے کا سب سے آسان میدان رہا ہے کہ اس میدان میں اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ جینوئن ادیب کی دلچسپیاں مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی توجہ کا مرکز کوئی اور ہی دنیا ہوتی ہے اسی لیے طفیلیے تابڑ توڑیے کے لیے میدان ِ ادب میں دندناتے پھرنا بہت اطمینان بخش ہوتا ہے۔
دنیا اوپر سے نیچے ہو جائے، قدرتی آفات آئیں یا مین میڈ کرائسس ان کی ذات اور حالات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اتنی تیزی سے ہر طرح کے حالات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں کہ کوئی عزت دار اور باضمیر انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ ان کی سب سے بڑی پہچان ہے کہ یہ پاکستان کے حالات کی خرابی، ابتری اور ہر طرح کے بحران کا انکار کرتے نظر آئیں گے اور ہمیشہ ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دیں گے۔ میں نے خود ذاتی طور پر بارہا ایسے طفیلی تابڑ توڑیوں کے منہ سے سنا ہے کہ کہاں ہے جی غربت پاکستان میں آپ جا کے ذرا لاہور کا ایم ایم عالم روڈ تو چیک کریں۔ کیفے دیکھیں۔ شاپنگ پلازوں میں رش دیکھیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ لوگوں کے پاس کتنا پیسا ہے۔ لاہور کے ہوٹل دیکھیں جی تِل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ملک غریب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں چونکہ ان کی اپنی جگاڑ لگی رہتی ہے اس لیے یہ نہ تو ملک میں موجود لوگوں کے دکھ دیکھنا، محسوس کرنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں اور نا ہی اپنے کالموں، ٹی وی پروگراموں، بلاگز، وی لاگز یا ادبی تحریروں میں سامنے لانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک میں انصاف قائم نہیں اور پاکستان کا طاقتور اور مقتدر طبقہ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اسی لیے طفیلیے تابڑ توڑیے کبھی ایسی سچائی زبان یا قلم پر نہیں لاتے بلکہ ہمیشہ اپنے آقاو¿ں کو ان کے منصفانہ اور فراخ دلی پر مبنی دور حکومت کا یقین دلا کر ایک ایک لاکھ آدمی کا فائدہ اکیلی صورت میں حاصل کرتے ہیں۔ یعنی جتنا فائدہ ایک طفیلیا تابڑ توڑیا حاصل کرتا ہے اس سے ملک میں ایک لاکھ غریب کا بھلا ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ اخباروں، ٹی وی چینلوں یا کتابوں کو ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مقتدر طبقے کے نزدیک خود کو کار آمد اور فائدہ مند ثابت کر کے مفادات حاصل کر سکیں۔
طفیلیے تابڑ توڑیے کو درجنوں چھوٹے چھوٹے واقعات اور سیکڑوں لطیفے یاد ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے کہ یہ کبھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ان کو آپ دنیا کا کوئی فلسفہ، علمی بات، قول، واقعہ یا شعر سنانے کی کوشش کریں یہ ایک سیکنڈ میں اس سے ملتی جلتی آئٹم آپ کے سنائے قصے یا شعر سے بڑا کر کے سنا ڈالیں گے۔ یہ حکمرانوں کے لیے جتنے لچکیلے، نرم و ملائم، عجز و انکسار کے بھرے ہوئے اور خوشامدی ہوتے ہیں عام، غریب یا غیر حکمران کے سامنے اتنے ہی کرخت، متکبر اور سفاک ہوتے ہیں۔ واجبی تعلیم اور محدود علمی قابلیت کے باوجود یہ ہمیشہ بڑی بڑی پوسٹوں پہ نظر آتے ہیں۔ ایک چیز جو بہت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا آخری حصہ زیادہ تر بدنامی اور ذلت میں گزرتا ہے کیونکہ زمانہ جان چکا ہوتا ہے کہ یہ صاحب بہادر یا عزت مآب طفیل تبریز صاحب نہیں بلکہ طفیلیے تابڑ توڑیے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.