سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی

92

 

اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے گزشتہ روز تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی اور سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالت کے سوالوں کے جواب کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی. کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

 

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔

 

درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنیچ مل کر کام کریں گے۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینیئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

 

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کون سی درخواست میں وکیل ہیں؟

 

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیاگیا، اس پر آپ کیا دلائل دیں گے؟

 

خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں، اُس کا کیا ہوگا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، ’پارلیمنٹ اومنی پوٹینٹ ہے‘ کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا، آپ فوکس رکھیں۔

 

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں، آج کی بات کریں۔

 

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگرقانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟

 

جسٹس عائشہ اے ملک نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔

 

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، اپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کہا کہتا ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔

 

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون دونوں کا الگ کیا گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے ہیں اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متلعق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور ؟ کیا ہارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی یے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔

 

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کی کوئی ذاتی دلچسبی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔

 

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟

 

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے آپ کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔

 

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو، آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس 2 سینئیر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے، آپ سے کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار سا نہیں کردیا گیا؟

 

خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے ہر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں، میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟

 

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں، آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟

 

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے؟

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟

 

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا؟ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں؟

 

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 199 کے اندر اپیل کا حق دیا گیا تھا تو کیا وہ غلط تھا؟ ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے وہ ٹھیک تھے؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔

 

جسٹس سردار طارق مسعود نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، جواب دینے کی ضرورت نہیں۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔

 

چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی، خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے؟

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں تو پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے، آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔

 

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں نہیں لوں گا، آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔

 

خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروا سکتے ہیں۔

 

وکیل خواجہ طارق رحیم کے بعد دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔

 

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے تو 2 سینیئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔

 

جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں، آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کے لیے ہو سکتا ہے۔وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔

 

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے؟ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔

 

اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھی؟

 

جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب ہم جو بولے جا رہے ہیں آپ وہ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟

 

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے؟

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف یہ بتادیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لاء لگانے والے آمر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کیلئے ریفرنڈم نہیں کرواسکتے۔

 

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے قانون اچھاہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔

 

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کون ہوتا ہے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، 5 رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کیلئے 7 رکنی بنچ تشکیل دینے کا قانون بناسکتی ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز کی ہی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی جانب سے دیے گئے فیصلے بھی قانون ہی ہوتے ہیں، ججز کے فیصلوں سے بنائے گئے قوانین کے خلاف پارلیمان قانون سازی کیسے کر سکتی ہے، کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں کو قانون سازی کے ذریعے بے اثر بھی کر سکتی ہے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 3 ججز کا بینچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے تو 17 ججز کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟

 

دوران سماعت جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ساتھی ججز سے گزارش ہے کہ پہلے وکیل صاحب کو دلائل دینے دیں۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاملہ عدلیہ کی انتظامیہ امور میں پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کا ہے، امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور سپریم کورٹ کے رولز الگ الگ ہیں۔

 

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کے رولز جب چیلنج ہوں گے تو دیکھیں گے، آپ سپریم کورٹ رولز بتائیں۔

 

چیف جسٹس کے بار بار ٹوکنے پر وکیل امتیاز صدیقی غصے میں آ کر بولے کہ آپ مجھے کہتے ہیں دلائل دیں، میں دلائل دیتا ہوں تو اپ ٹوک دیتے ہیں، میں آدھے گھنٹے سے آپ کو سن رہا ہوں، صبر کے ساتھ میرے دلائل بھی سنیں، آپ اگر میری تضحیک کریں گے تو میں دلائل نہیں دوں گا۔

 

دریں اثنا عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں دوپہر 3 بجے تک وقفہ کردیا۔

 

وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اُٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔

 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے، قانون کےزریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا، میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے، آپ نے دلائل درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کئے تھے وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 میں نہیں آتی۔

 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3 اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔

 

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے۔

 

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔

 

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کے لیے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔

 

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، فل کورٹ کے سامنے معاملہ ہے اس لیے مدعا سامنے رکھا ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے، جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے، دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے کیا پہلے ہائی کورٹ نہیں جانا چاہیےتھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی ایک مقدمہ میں کہا کہ ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا اور اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔

 

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔

 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے تھے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایکڈیمک بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جاؤں تو مجھے کون روک سکتا ہے۔

 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں، ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ دو سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کے لیے بنایا گیا، اس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کیے گئے ہیں۔

 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی دلیل پر کہا کہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل آپ نے بہترین طریقے سے بتا دیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہو گا۔

 

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا دوبارہ پارلیمنٹ کو لگا کر 3 کے بجائے 17 جج بیٹھ کر بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ کریں تو وہ بدل دیں گے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے، اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نہ ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نہ کرتا۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی مثالیں دیتے ہیں تو امریکی سپریم کورٹ کی دیں، امریکی صدر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بس 20 منٹ ہیں، جب تک کوئی قانون خلاف آئین نہ ہو تواس کی حمایت کرنی چاہیے، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے اور کچھ فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی۔

 

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ یہ قانون ہمارے زیرالتو مقدمات کا بوجھ بڑھا تو نہیں دے گا، جسٹس مظہرعلی نے بھی پوچھا کہ ماضی سے اس قانون کا اطلاق کرنے سے تو 1947 کے بعد سارے کیسز اپیل میں آجائیں گے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کا 30 دن کا وقت تو گزر گیا اب تک کتنی اپیلز آئی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون معطل تھا اس لیے اپیلیں نہیں آئیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ان تمام فیصلوں کے خلاف اپیل آسکتی ہے جن میں مارشل لا کو قانونی راستہ دیا گیا ہے۔

 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ شفافیت ہو رہی ہے تو کیوں چھپا رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم آئین ،قانون پھر رولز اور پھر نوٹیفیکیشنز کے پابند ہیں۔

 

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ فرض کریں کہ اس کیس کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو معاملہ ختم اور اگر عدالت نے اس قانون کو آئینی قرار دے دیا تو دیے گئے فیصلوں کا کیا ہو گا، جس پر اٹانی جنرل نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہاں کیا فیصلہ دینا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بہت کوئی بڑی چیز ہوگئی تو پھر نظر ثانی تو پڑی ہوئی ہے، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ دیکھنا ہے سیاسی جماعتیں کیا چاہتی ہیں۔

 

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس کے ساتھ اپنے دلائل مکمل کیے اور اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اہم مسئلہ میں جا رہے ہیں ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔

 

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم نامہ تحریر کرایا درخواست گزار وکلا سے اگلی سماعت تک تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا۔

 

درخواست گزار وکیل خواجہ طارق رحیم سے پوچھا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ انہیں دو دن چاہیے ہوں گے، دوسرے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں آدھا گھنٹہ لوں گا۔

 

سپریم کورٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کہ انہیں سندھ طاس معاہدے سے متعلق مقدمے کے حوالے سے بیرون ملک جانا ہے، درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو عدالتی سوالات کے جوابات دینے ہیں۔

 

چیف جسٹس نے وکلا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جواب جمع کرائیں اور آئندہ سماعت کی تاریخ ساتھی ججوں سے مشاورت کے بعد دی جائے گی۔

 

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کی اور دونوں سینئر ججوں سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ اس ہفتے بینچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا، جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اگر آپ نے آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بینچز کیسے تشکیل دینے ہیں۔

 

واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کے خلاف دائر درخواستوں کی آج ہونے والی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

تبصرے بند ہیں.