کسی بھی جمہوری ملک میں آئین کو اسی لئے بالا دست قرار دیا جاتا ہے کہ اس میں عوامی اور ریاستی امور کے تقریباً سبھی معاملات کی وضاحت موجود ہوتی ہے اور ہر ادارے کے لیے پیرامیٹرز بھی طے کر دیے گئے ہیں، یہ پیرامیٹرز کیا ہیں؟ یہی کہ ہر ادارے کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور یہ ذمہ داریاں کن حدود کے اندر رہ کر پوری کی جانی چاہئیں، ان واضح قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کے باوجود پتہ نہیں کیوں بطورِ قوم ہمیں ہر موڑ پر ایک نئی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوتا کہ ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا نظر آتا ہے۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
موجودہ صورتحال میں پاکستان کا سب سے اہم آئینی ادارہ الیکشن کمیشن شائد سب سے زیادہ متنازعہ بنا دیا گیا ہے، اس ادارے کے موجودہ سربراہ سکندر سلطان راجا جب سے اس منصب پر براجمان ہوئے ہیں وہ، حکومتوں اور ان کے عہدیداروں سے اپنے ”اہم آئینی کاموں“ کے سلسلے میں ناراض ہی رہتے ہیں، وقت پر صاف اور شفاف الیکشن کرانا انکی آئینی ذمہ داری ہے مگر وہ اسے پورا کرنے کی بجائے، پرانے دوستوں اور دشمنوں، کے لئے حساب چکتا کرنے میں زیادہ مصروف ہیں، اس سلسلے میں ان کا سیکرٹریٹ روزانہ کی بنیادوں پر لیٹر جاری کرنے میں مصروف ہے، وہ ایک طویل عرصہ تک سول سروس کا حصہ رہے ہیں، اس لئے انہیں یہ بھی حساب رکھنا چاہئے کہ ان کے لکھے ہوئے خطوط کا انجام کیا ہو رہا ہے۔
آئین میں درج ہے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل کئے جانے یا ان کی میعاد ختم ہونے کے بعد نوے روز میں انتخابات کرانا ضروری ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے نو ماہ ہو رہے ہیں اور قومی، سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی میعاد ختم ہوئے ایک مہینے سے زیادہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں جا رہا، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی فوری تاریخ دے، سیاسی عدم استحکام الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے ختم ہو سکتا ہے اور یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ ملنی چاہئے۔ سابق چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ ریمارکس دئیے کہ جب آئین میں 90 روز کا لکھا ہے تو تکرار نہیں ہونی چاہئے جبکہ امریکہ بھی کئی بار زور دے چکا ہے کہ پاکستان میں بروقت انتخابات ہونے چاہئیں۔ صدرِ مملکت عارف علوی بھی متعدد بار اس کا تقاضا کر چکے ہیں، کیا یہ تقاضے پورے ہو رہے ہیں؟ نگران حکومتیں کہتی ہیں کہ انہیں نہیں معلوم الیکشن کب ہوں گے؟ ایسا وہ حکومتیں کہہ رہی ہیں جن کی اپنی میعاد تین ماہ سے زیادہ نہیں ہے، دوسری طرف یہ تو طے ہے کہ ملک میں عام انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہے؟
روایت یہ ہے کہ جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تاکہ سرکاری مشینری کو انتخابات پر اثر انداز ہونے سے روکا جا سکے، ابھی الیکشن کی تاریخ کا تو اعلان نہیں ہوا مگر ہر وہ کام الیکشن کمیشن کر رہا ہے جو الیکشن کی تاریخ دینے کے بعد کیا جاتا ہے، ابھی پچھلے ماہ الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں کو تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کے حوالے سے ہدایات جاری کی تھیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریر کردہ ایک خط میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ شفاف، بروقت انتخابات یقینی بنانا اسی کا کام ہے، خط میں کہا گیا تھا کہ نگراں حکومتیں انتخابات کے لیے معاونت یقینی بنائیں، پیشگی اجازت کے بغیر تقرر و تبادلے نہ کیے جائیں، تب الیکشن کمیشن نے وفاقی، صوبائی اور مقامی اداروں پر ہر قسم کی بھرتیوں اور وفاق و صوبوں میں ترقیاتی سکیموں پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس پابندی پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ کیا یہ عمل انتخابات کے نتائج کو متاثر نہیں کرے گا؟ کیا اس طرح الیکشن میں ہارنے والی پارٹیوں کو پری پول رگنگ کا شور مچانے کا موقع نہیں مل جائے گا؟ یہ سوالات اور اس حوالے سے چہ میگوئیاں ابھی جاری تھیں کہ پتا چلا تمام محکموں کے سکیل ایک سے انیس تک کے تمام افسران و ملازمین کے تبادلوں پر پابندی اٹھا لی گئی ہے، اس کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ دینا کیسے ممکن ہو سکے گا؟
ایک طرف یہ معاملات چل رہے ہیں تو دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وفاقی کابینہ میں سیاسی افراد کی شمولیت پر تشویش کا اظہار اس وقت یاد آیا جب فواد حسن فواد کو وفاقی کابینہ میں سب سے آخر میں شامل کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری نے نگران وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط میں لکھا کہ ایسا تاثر جا رہا ہے کہ نگران حکومت سابقہ حکومت کا تسلسل ہے، انہیں تشویش پر مبنی مراسلہ لکھنا اسوقت یاد نہ آیا جب ان سے قبل کابینہ ارکان کو نامزد کیا گیا۔
کیا یہ سارے معاملات اور باتیں یہ اشارہ نہیں دے رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنے پیرامیٹرز سے باہر نکل رہا ہے، بیوروکریسی کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی نئی ہدایات کیا اشارہ دے رہی ہیں، نگران حکومتوں کو پہلے بھی کئی بار ایسے خط لکھے جا چکے ہیں، اپنے پیرامیٹرز سے باہر نکل کر کھیلنا خطرناک ہو سکتا ہے، ضرورت سے بڑی چھلانگ بعض اوقات نقصان کا باعث بن جاتی ہے، چیف الیکشن کمشنر خود ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، وہ غور کریں کہ الیکشن کمیشن کے پیرامیٹرز کیا ہیں؟ بہتر ہے وہ اس سلسلے میں اپنی پسند ناپسند کے تحت چلنے کی بجائے قانون اور ضابطوں کو بنیاد بنائیں، کبھی وہ چیف سیکرٹری کے پی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، کبھی انہیں فواد حسن فواد نظر آنے لگتے ہیں، کیا اس طرح وہ خود کو جانب دار ظاہر نہیں کر رہے؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کے ساتھ بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ کے تعین کے لیے تو وقت نہیں ہے لیکن باقی غیر ضروری معاملات کے لیے بہت وقت ہے۔
ہر الیکشن کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور اٹھتا ہے، کوئی بھی الیکشن کے نتائج کو تہ دل سے قبول نہیں کرتا، بلا شبہ دوسرے ضروری معاملات کی طرف توجہ دی جانی چاہئے لیکن بنیادی فرائض چھوڑ کر غیر ضروری معاملات کو اہمیت دی جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہو رہا ہے، سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال ہے، معاشی مسائل بھی اسی سیاسی عدم استحکام سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا حل وقت پر شفاف، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ نئی منتخب حکومت ریاستی معاملات سنبھالے گی تو ہی یہ جمود ٹوٹے گا، مہنگائی میں کمی، بجلی کے بلوں کے معاملات، درآمدات و برآمدات میں عدم توازن ختم کرنے کی کاوش، کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کا فروغ اور سرکاری محکموں کی کارکردگی میں بہتری سبھی ایشوز سیاسی جمود کے ٹوٹنے سے وابستہ اور منسلک ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.