چند دن پہلے پاکستان کے میڈیکل گریجویٹس سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔ یہ رپورٹ گیلپ پاکستان اور پرائیڈ (PRIDE) نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ کم وبیش 35 فیصد لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملازمت نہیں کرتیں۔ مطلب یہ کہ ڈگری کے حصول کے بعدوہ میڈیکل کے پیشے کو اختیار نہیں کرتیں اور گھروں تک محدود ہو جاتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری لینے کے بعد شادی کرلیتی ہیں او ر امور خانہ داری میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ سروے میں جو اعداد و شمار بیان کئے گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں 104,974 خواتین میڈیکل گریجو یٹس موجود ہیں۔ ان میں سے 68,209 یعنی 65 فیصد مختلف سرکاری او ر نجی ہسپتالوں یا کلینکس وغیرہ میں کام کر رہی ہیں۔ جبکہ 35 فیصد کسی قسم کی نوکری نہیں کر رہیں۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیں ملازمت نہیں ملتی۔ تاہم زیادہ تعداد ان خواتین کی ہے جو شادی وغیرہ کے بعد پریکٹس کے بجائے گھریلو زندگی بسر کرتی ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1947 سے اب تک دو لاکھ ڈاکٹر وں کو تعلیم اور ڈگریاں دی جا چکی ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1970 سے اب تک تیس ہزار ڈاکٹر پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں۔اب بھی اوسطا ایک ہزار ڈاکٹر ہر سال پاکستان سے باہر جا رہے ہیں۔
گیلپ کی تحقیق میں جن نکات کا ذکر ہے وہ نئے نہیں ہیں۔ اس رپورٹ میں انکشاف والی بھی کوئی بات نہیں۔ تاہم یہ رپورٹ اس لئے قابل غور ہے کہ اسے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں خواتین کو بہت سے مسائل اور سماجی دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہر لڑکی کے لئے ممکن نہیں۔لڑکیاں اعلیٰ ڈگری لے بھی لیں تو ملازمت کی اجازت ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔لڑکیوں کے لئے شادی بھی ایک اہم سماجی معاملہ (بلکہ مسئلہ) ہے۔اکثریہ بات سننے میں آتی ہے کہ بہو کی تلاش میں نکلے والدین ڈاکٹر بہو کی خواہش کرتے ہیں۔ لہذا بیشتر لڑکیاں میڈیکل کالجوں میں اس وجہ سے داخلہ لیتی ہیں کہ انہیں اچھا رشتہ مل سکے۔ اکثربچیوں کے والدین بھی اس خیال کے زیر اثر اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم دلاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈگری لینے کے بعدبیشتر لڑکیاں شادی کر لیتی ہیں۔ سسرال والے ڈاکٹر بہو مل جانے پر خوش ہوتے ہیں۔ خاندان میں ان کی واہ واہ ہوتی ہے۔ بہو کی میڈیکل کی ڈگری کسی الماری میں پڑی رہ جاتی ہے۔ضروری نہیں ہے کہ لڑکی بہ رضا و رغبت پریکٹس کو چھوڑ دیتی ہے۔ بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد لڑکیاں ملازمت کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں اجازت نہیں ملتی۔ یہ صورتحال ہمارے سماجی رویوں اور ذہنیت کی عکاس ہے۔
برسوں سے ہم یہ بحث سن رہے ہیں کہ میڈیکل کی ڈگری لے کر گھر بیٹھ جانے والیوں کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نجی تعلیمی اداروں میں میڈیکل کی ڈگری کے لئے اوسطا پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ روپے فیس لی جاتی ہے۔ سرکاری اداروں میں یہ فیس تقریبا دس لاکھ ہے۔ یعنی ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت کو چالیس لاکھ روپے سرکاری خزانے سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ سبسڈی کی یہ رقم غریب عوام کے ٹیکسوں میں سے ادا ہوتی ہے۔ جب کوئی لڑکی سرکاری میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کرنے کے بجائے گھر بیٹھ جاتی ہے (جیسا کی 35 فیصد لڑکیاں کرتی ہیں) تو اربوں روپے کی یہ سرمایہ کاری ضائع ہو جاتی ہے۔ برسوں سے یہ معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ کچھ ماہرین رائے دیتے ہیں کہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع دینے چاہئیں۔ تاکہ سیٹیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔ یہ نکتہ نظر بھی موجود ہے کہ میڈیکل جیسی اہم ڈگری لینے کے بعد پریکٹس کو لازمی قرار دینا چاہیے۔ بہرحال اس ضمن میں کوئی پالیسی ضرور بننی چاہیے۔ تاکہ صورتحال میں بہتری لائی جا سکے۔مثال کے طور پرہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کسی طالب علم کو سکالر شپ یا وظیفہ پر بیرون ملک بھجواتا ہے تو ایک شیورٹی بانڈ بھی سائن کرواتا ہے۔ طالب علم کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ واپس آ کر چند سال کسی سرکاری تعلیمی ادارے کے ساتھ بطور استاد منسلک رہے گا۔ اگرچہ کئی طالب علم کمیشن سے لاکھوں روپے کی سکالر شپ لینے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس نہیں آتے۔ بیرون ملک کسی اچھی نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں اور نوکری ملنے کے بعد پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ ان چند کیسوں کے باوجود یہ ایک اچھی پریکٹس ہے۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے بھی کوئی پالیسی وضع ہونی چاہیے۔
ہمارے ہاں پہلے ہی ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔تاہم وسائل اور افرادی قوت محدود ہے۔ آبادی کی ضرورت کے مطابق ڈاکٹر دستیاب نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں ہزاروں ڈاکٹروں کا ملک چھوڑ کر باہر جانا بہت نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ رہی سہی کسروہ خواتین پوری کر دیتی ہیں جو حکومت کے کروڑوں، اربوں روپے خرچ کروانے کے بعد گھر جا بیٹھتی ہیں۔ مالیاتی پہلو کے علاوہ اس صورتحال کا سماجی اور مذہبی پہلو بھی ہے۔ ہم ایک قدامت پرست اور روایت پرست سماج کا حصہ ہیں۔ یہاں دیہاتوں اور دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھر کی خواتین کسی مرد ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔ ان کی سوچ کسی حد تک قابل جواز ہے۔خواتین کو کھانسی، بخار وغیرہ کی دوا لینے کے علاوہ دیگر طبی معاملات بھی درپیش ہوتے ہیں۔ مثال کے طور گائناکولوجی کے شعبے کو لیجئے۔ یہاں خواتین ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ مر دڈاکٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔ بیشتر مریض خواتین کے لئے یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ خواتین چاہتی ہیں کہ وہ خواتین ڈاکٹروں اور سٹاف سے علاج کروائیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ مرد ڈاکٹروں اور عملے کے علاوہ آپشن دستیاب نہیں ہوتے۔ اگر زیادہ تعداد میں خواتین ڈاکٹر موجود ہوں تو شاید یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ چند برس قبل مجھے ایک کینسر ہاسپٹل میں بریسٹ کینسر کی چند خواتین مریضوں سے ملنے کا موقع ملا۔ انہیں مرد ڈاکٹروں اور سٹاف سے علاج کروانا نہایت گراں گزرتا تھا۔ مگر وہی بات کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ جب لڑکیاں میڈیکل کی ڈگریاں لے کر شادیاں کریں اور گھر بیٹھ جائیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ اس سارے قصے میں مذہب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں ہے۔
گیلپ کی رپورٹ کو پڑھ کر یہ صورتحال ایک مرتبہ واضع ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان اس ملک میں رہنا نہیں چاہتے۔ جسے موقع ملتا ہے وہ یہاں سے نکل کر کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہے جہاں اس کا مستقبل محفوظ ہو۔ چند ماہ پہلے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ 62 فی صد نوجوان اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ یہ خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ گزشتہ برسوں میں ہزاروں پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن ہماری حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سیاسی مسائل سے ہی فرصت نصیب نہیں۔ ہر حکومت سیاسی فکروں میں غرق رہتی ہے۔ ایسے میں حساس پالیسی معاملات کی فکر کون کرئے۔ یوں بھی ہمارے ہاں طویل المدت پالیسی سازی کی روایت نہیں ہے۔کاش ہمارے پالیسی ساز حلقے اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیں۔ اس ضمن میں پالیسی سازی کر لی جائے تو کیا حرج ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.